قومی اسمبلی کا اجلاس۔ صدر آئین کی پاسداری کریں 


نگران وفاقی حکومت نے ایوان صدر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بارے میں اس کے اعترضات کا جواب دیدیا۔ نگران حکومت کا موقف ہے کہ آئین کے تقاضے کے تحت21 روز میں بہر صورت اجلاس ہونا ہے۔ اس صورتحال میں ایک چیز جو بہت اہم ہے کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے، ممکنہ طور پر اس کے بارے میں الیکشن کمیش آف پاکستان کے فیصلے کا انتظار کیا جا رہا ہے، اس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد صورتحال حقیقی طور پر واضح ہو گی۔ حکومت نے سمری پر صدر کے خط میں اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 91 میں کہیں نہیں لکھا کہ ایوان نامکمل ہو تو اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔ صدر صرف آرٹیکل 54 کے تحت معمول کے اجلاس کو روک سکتے ہیں۔ نگران وفاقی حکومت نے صدر کو فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔
انتخابات کے بعد 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا آئین کا تقاضہ ہے اس کے سوا سب "لیکن تاہم اگر اور مگر" کی بحث کے سوا کچھ نہیں ہے۔پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے. نگران حکومت کی طرف سے صدر مملکت کو دوسری بار سمری بھیجی گئی کہ وہ 29 فروری یعنی آج قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیں تاکہ حکومت سازی کا عمل آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھ سکے. ایوان صدر کی طرف سے اس پر واضح رائے سامنے نہیں آئی۔ذرائع کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں جن کی تردید نہ ہونے سے انہیں درست سمجھا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق صدر مملکت تقاضا کر رہے ہیں کہ پہلے ایوان کو مکمل کیا جائے۔ ایوان کی تکمیل سے ان کی مراد خصوصی نشستوں کی پارلیمنٹ میں آنے والی پارٹیوں کو ان کی نمائندگی کے مطابق الاٹ منٹ ہے۔
انتخابات کے بعد چند روز میں الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ کام ہو جانا چاہیے تھا۔ہر پارٹی کو اس کی نمائندگی کے تناسب سے خصوصی نشستیں الاٹ کر دی جاتیں تو آج یہ بحث نہ ہو رہی ہوتی۔انتخابات سے قبل انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے حوالے سے اور اس کے بارے میں کئی پیچیدگیاں سامنے آئیں۔انتخابات میں ان کے پاس بلے کا نشان نہیں تھا بطور پارٹی وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی تھی۔اس کے امیدواروں کی طرف سے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا گیا۔جس کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی کہ اسے خصوصی نشستیں ملنی بھی چاہئیں یا نہیں۔تحریک انصاف خصوصی نشستوں کے حوالے سے معاملہ الیکشن کمیشن میں لے گئی۔وہاں اس پر سماعت جاری ہے۔گزشتہ روز ہی تحریک انصاف کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کیس میں دیگر پارٹیوں کو بھی فریق بنایا جائے۔اب الیکشن کمیشن کی مجبوری ہے کہ وہ سب کی بات سنے سمجھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے۔اس میں ایک دن لگتا ہے، ایک ہفتہ لگتا ہے یا اس سے زیادہ۔ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیا جب تک الیکشن کمیشن کی طرف سے خصوصی نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوتا اجلاس اس روز تک نہیں بلایا جائے گا؟. ایسے میں حکومت سازی کا عمل کتنا تاخیر کا شکار ہو گا ؟کیا ہمارا نظام اس تاخیرکا متحمل ہو سکتا ہے؟
صدر مملکت کی طرف سے پارلیمان کے مکمل ہونے تک اجلاس نہ بلانے کے موقف پر ان پارٹیوں کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صدر نے غیر آئینی اقدام کیا ہے. ان پر دو مقدمات ہوں گے ایک انہوں نے قومی اسمبلی وزیراعظم کی غیر قانونی سفارش پر توڑ دی تھی۔دوسرے اب وہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہے۔مسلم لیگ ن کے رہنماو¿ں کی طرف سے صدر کے اجلاس طلب نہ کرنے کو آئین سے کھلواڑ قرار دیا گیا ہے۔بادی النظر میں فریقین ایک دوسرے پر شدت بھرے بیانات کی گنیں تانے ہوئے ہیں۔سیاسی اختلافات پہلے ہی نفرتوں ذاتیات اور دشمنی تک پہنچ چکے ہیں ایسے میں گنز ڈاو¿ن کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
سر دست خصوصی نشستوں کا فیصلہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا اگر ایک آدھ روز میں فیصلہ آجاتا ہے تو ٹھیک ورنہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ خصوصی نشستوں سے سپیکر اور وزیراعظم کے انتخابات پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں، تحریک انصاف کو بالفرض خصوصی نشستوں سے محروم رکھا جاتا ہے تو یہ دوسری پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں گی سب سے زیادہ مسلم لیگ نون پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے حصے میں آئیں گی۔ یہ پارٹیاں ایک ساتھ مل کر حکومت بنا رہی ہیں یوں وزیراعظم اور ان پارٹیوں کے سپیکر کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔آج 29 فروری کو اجلاس بلانے کی مخالفت میں صدر کا ساتھ تحریک انصاف دے رہی ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر کسی بھی طرح جمہوریت اور ملک و قوم مفاد میں نہیں ہے۔اس سے صرف حکومت سازی میں ہی تاخیر نہیں ہوگی۔دیگر معاملات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔کل مارچ کا آغاز ہو رہا ہے۔اسی ماہ مارچ میں سینٹ کے انتخابات بھی ہونے ہیں۔نئی حکومت نے اپنی تشکیل کے ساتھ ہی بجٹ کی تیاری بھی شروع کر دینی ہے لہٰذا ایک ایک دن اہمیت کا حامل ہے۔
صدر کسی بھی دور میں ہو کسی بھی پارٹی کا ہو وہ وفاق کی علامت ہوتا ہے۔ہمارے ہاں صدر صاحبان ایسا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنی پارٹی کی کئی معاملات میں بیجا طرف داری بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ صدر علوی کے بارے میں بھی یہی تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ وہ وفاق کی علامت بننے کے بجائے تحریک انصاف کے رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ صدر کے لیے یہ تاثر دور کرنا ناگزیر ہے۔ ماہرین اور محب وطن حلقے صدر سے جمہوری کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔آج انتخابات کو 21 روز ہو چکے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ صدر علوی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری پر آج ہی دستخط کر دیں گے تاکہ کسی قسم کے آئینی بحران اور ابہام سے بچا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن