بالکل تھا ۔ اگر مجھے اور آپ سب کو ، ان نتائج کا علم تھا ،تو فوج بھلا کیسے اس حقیقت سے آنکھیں بند کرسکتی تھی ۔ میں تو ذاتی طور پر انتخابات کے حق میں نہیں تھا، اس لئے کہ گذشتہ 77برسوں میں الیکشن نے ہمیں اچھی حکومت نہیں دی۔ مگرمجھے ایک فکر لاحق تھی کہ صدر عارف علوی سے کیسے نجات پائی جائے ۔ انتخابات نہ ہونے کی صورت میں وہ تاحیات اس منصب پر فائز رہ سکتے تھے ، بس اسی ضرورت کی وجہ سے الیکشن کی بدعت کا قائل ہونا پڑا۔
اب آپ کا سوال ہوگا کہ فوج کا الیکشن سے کیا تعلق ؟ ا گر آپ آئین کا مطالعہ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ فوج اندرونی اور بیرونی خطرات سے وطن عزیز کو بچانے کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ اگرچہ حالیہ انتخابی نتائج سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی ۔ لیکن اگر ہوجاتی تو اس سے نبٹنا بھی بہرحال فوج ہی کی ذمہ داری تھی ۔ ہماری فوج تو پچھلے د و برسوں سے چلاّچلاّ کر کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ لیکن ہمارے سویلین دماغ اس خطرے کی گھنٹی سننے سے عاری ہیں ۔ فوج کو نائن الیون کے بعد بھی دہشت گردی ہی سب سے بڑا خطرہ نظر آئی۔ اور اس نے بیس سال تک قربانیوں پہ قربانیاں دے کر دہشت گردوں کو شکستِ فاش دی ۔ جبکہ یہ کام امریکہ اور نیٹو افواج مل کر بھی افغانستان میںکئی برسوں تک سرانجام نہیں دے پائیں۔ انہیں بالآخر ر سوا ہوکر کابل حکومت چھوڑنا پڑی ۔ پاک فوج پر امریکہ کا یہ الزام رہا ہے کہ وہ طالبان کی پشت پناہی کررہی ہے ۔ پاک فوج کو داد دینی چاہئیے کہ وہ گالیاں کھا کھاکر بھی بدمزہ نہیں ہوئی، بلکہ اس نے ہمت اور پا مردی سے پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں کے تسلط اور قبضے سے آزاد کروایا۔ فوج بھی اسی انداز میں پاکستان کو درپیش ہر خطرے سے نبٹنا جانتی ہے ۔
حالیہ انتخابات نے پاکستان کو ایک ’ہنگ پارلیمنٹ ‘ کا تحفہ دیا ہے ۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومت کی صورت گری واضح ہورہی ہے ۔ توقع یہی ہے کہ سیاست دان ہوش کے ناخن لیں گے اور ملکی معاملات کو چلانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اپنے اپنے قومی فرائض کا کلی اندازہ ہے ۔ اسی لئے وہ میثاقِ جمہوریت سے لے کر اب تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہےں ۔ کس کو اندازہ نہیں کہ پیپلزپارٹی نے 1971ءسے لے کر اور مسلم لیگ ن نے 1981ءسے لے کر اب تک کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی اور ملک کو مسائل کے جہنم میں جھونکا۔
حالیہ انتخابی نتائج سے یہ دونوں پارٹیاں اپنی اپنی جگہ پر خوب آگاہ تھیں ، ان کی ماضی کی کارکردگی ان کے پاﺅں کی زنجیر بنی ۔ ووٹر بھی ان سے بدک گئے ۔مجھے پیپلزپارٹی کے ساتھ دلی ہمدردی ہے ، کہ وہ اپنے دو لیڈر کھوبیٹھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کی نذر ہوگئیں۔ جب سے پارٹی کی کمان آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آئی ہے ، انہوں نے جہاں تک بن پڑا ہے ، اپنی ہمت سے زیادہ کام کیا ہے ۔وہ صوبہ سندھ میں اپنے ووٹر کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے ۔ اس پارٹی نے لاہور اور اسلام آباد میں بلاول ہاﺅس کی شکل میں سیاسی قلعوں میں بیٹھ کر ا پنے عوامی اثرورسوخ کو بڑھانے کی ضرورت کوشش کی ، جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوسکی ۔
دوسری طرف مجھے مسلم لیگ ن سے بھی دلی ہمدردی ہے ، کہ اس کی قیادت مسائل کا شکار بنی رہی ۔ قید و بند اور جلاوطنی اس کا مقدر رہی ۔ جس کی وجہ سے وہ صوبہ پنجاب میں بھی اپنے ووٹ بینک کو بھی سہارا نہیں دے سکی۔ اس پارٹی نے سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے میں پنجے گاڑنے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی ۔ اس پس منظر میں اس کے انتخابی نتائج ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا خواب سجاکر وطن واپس آئے ، مگر ان کی پارٹی وقتی مصلحتوں پر قابو نہ پاسکی اور میاں نوازشریف کو انتخابی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔ اب سارا بوجھ میاں شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز کے کاندھوں پر آن پڑا ہے ۔
پی ٹی آئی کے ا میدوار بڑی تعداد میں آزادحیثیت سے سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے ، یہ نتیجہ سب کو نظر آرہا تھا ۔ پی ٹی آئی نے عوام کے دل و دماغ کو گوئبلز جیسے پروپیگنڈے سے شل کردیا ہے ، گو عوام کاایک بڑا طبقہ پی ٹی آئی کے سحر میں ہے ۔ وہ فوج کے خلاف گالیاں بکنے کو برا نہیں سمجھتے ، نہ 9مئی جیسی پاک فوج کے خلاف شرمناک یلغار پر کسی شرمندگی کا اظہار کرنے کو تیار ہےں۔ ماضی میں مختلف قوموں میں غدار پیدا ہوتے رہے ہیں ، عمران خان میر جعفر اور میرصادق کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے تھے ۔ بہرحال غداری ایک کلنک کا ٹیکہ ہے ۔ جس کا تجربہ ہر قوم کو کسی نہ کسی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ آج کا پاکستان اسی غداری سے پیدا ہونے والے مہلک خطرات و اثرات میں گھرا ہوا ہے ۔
اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی” مقبولیت “ کو بریکیں نہ لگاسکی ، تو آئندہ بھی ان سے ایسی بریکیں لگانا ممکن نہیں ہوگا۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، اب فوج ہی ان خطرات سے لڑبھڑ جائے گی ۔ اس کے لئے امریکی یا نیٹو افواج ہماری کچھ مد د نہیں کرسکتیں ، صرف ہماری بہادر افواج ہی ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں ۔ 1947ءمیں جب مہاجرین کے قافلے لٹ رہے تھے اور بلوچ رجمنٹ کا صرف ایک سپاہی ان لٹے پٹے قافلوں کو منزل ِ مقصود تک پہنچا رہا تھا، تو آج پاکستان کی مسلح افواج کا ایک ایک افسر اور سپاہی دشمنوں کے سامنے تن تنہا سینہ تانے کھڑا ہے ۔
میری بہنواور میرے بھائیو ! آئیے ہم سب دل و جان سے افواجِ پاکستان کا ساتھ دیں ۔ بلاشبہ جنرل سید عاصم منیر کی شکل میں اللہ نے پاکستان کو ایک نعمت سے نوازا ہے ۔ وہ خالد بن ولید، محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کی روشن میراث کے وارث ہیں ۔امیدِ واثق ہے کہ وہ ہماری نسلوں کے لئے مسیحا اور نجات دہندہ ثابت ہوں گے ۔