اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + اپنے سٹاف رپورٹر سے) اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس ملک کی اہم سیاسی قیادت کے درمیان مشاورت کا مرکز بن گیا۔ نامزد وزیراعظم کی جانب سے دیئے جانے والے ڈنر میں ملکی معیشت چیلنجز اور دوسرے امور پر بات چیت ہوئی۔ صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پر ہونے والی نامزدگیوں کی تائید کے علاوہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد کو مضبوط رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے نئی حکومت کے سامنے چارٹر برائے معیشت، قومی اتفاق رائے، انتخابی اور عدالتی اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کی تجاویز پیش کردیں۔ سیاسی قیادت کے اکٹھ میں سابق صدر آصف علی زرداری کی صدارت کے منصب، میاں شہباز شریف کے لیے وزارت عظمی کے منصب، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے مناصب پر نامزدگیوں کی توثیق کر دی گئی۔ دیگر راہنمائوں نے بھی معیشت اور دیگر ایشوز پر اظہار خیال کے علاوہ حکومت میں شامل نہ ہونے والی جماعتوں کے تحفظات پر ان سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ مشاورت میں معیشت کو چیلنج نمبر ایک قرار دیا گیا۔ اپوزیشن ہو یا حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں رابطے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈنر میں میاں نواز شریف موجود نہیں تھے۔ نامزد وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جماعتوں کے ارکان اور قیادت کو مبارکباد پیش کی۔ ڈنر میں ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، مصطفی کمال، سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی، باپ کے سربرا خالد مگسی، سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ، پاکستان مسلم لیگ ق کے چودھری سالک حسین، سید نوید قمر، رانا تنویر، استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان، سابق وفاقی وزیر احسن اقبال ، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف سمیت تمام اہم رہنما موجود تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تمام قیادت ڈنر میں میں موجود تھی۔ ڈنر کے بعد اتحادی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات چیت کی۔ نو منتخب رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑا، ایک جذبے کے تحت ہم اکٹھے ہوئے اور ہمیں اختلافات کو ختم کرنا چاہیے، ہماری کوشش ہوگی کہ ہم زخموں پر مرہم رکھیں، ہم مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ہم تمام اتحادی مل کر ووٹ دیں گے اور ہم سب مل کر چلیں گے، سب کو آن بورڈ لے کر میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کرنا ہے۔ ایم کیو کے مصطفی کمال نے کہا کہ گفتگو میں مفاہمت کی بات ہوئی، ملکی مسائل موجود ہیں اور اس وقت ملک دلدل میں چلا گیا ہے، کوئی پارٹی اس کو اکیلا باہر نہیں نکال سکتی۔ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا اتحادی پارٹیوں نے عہد کیا ہے کہ ہم نہ صرف صدر، وزیراعظم کے منصب، سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے منصب پر سپورٹ دیں گے، مل کر چلیں گے۔ باپ پارٹی کے سربراہ خالد مگسی نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ پانچ سال میں کون کون ذمہ داری کو نبھائے گا، عام ادمی کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما سالک حسین نے کہا معیشت سب سے بڑا چیلنج ہے اس پر فوکس ہونا چاہیے۔ قبل ازیں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان زخمی ہے، اسے مشکلوں اور مصیبتوں سے نکالنا ہے، اگلے ڈیڑھ دو سال مشکل ہوں گے اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے لیکن یقین ہے انشاء اللہ ملک مشکلات سے نکل جائے گا۔ ہمارے ارکان بہت سخت لڑائی لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں، واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے جن کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی، بانی پی ٹی آئی جب گرے تو میں سب سے پہلے ہسپتال پہنچا اور بنی گالہ میں مل کر آیا تو پتہ چلا کہ لندن میں طاہرالقادری سے اتحاد ہوگیا۔ لندن میں پاکستان میں دھرنوں کا پلان بنایا گیا، ایک طرف دھرنے تھے دوسری طرف دہشت گردی تھی، دھرنے ہوتے رہے ہم موٹروے اور بجلی کے کارخانے لگاتے رہے، ہم دہشت گردی کے خلاف لڑتے رہے۔ مجھے فارغ کرنے والے جج کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہیں؟۔ ججوں نے مجھے غصے سے نکالا، یہ کیا غصہ تھا؟۔ ججوں نے پاکستان کے ساتھ غلط کیا، یہ نقصان انہوں نے نوازشریف کو نہیں بلکہ ملک کو نقصان پہنچایا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کوئی 35 پنکچر والی بات نہیں ہے، کے پی کا وزیراعلیٰ اپنے لوگوں کو لیکر اسلام آباد پر حملہ کرنے آیا، ہم نے کہا ساتھ مل کر چلیں ہم آپ کو عزت دیں گے، قوم کے بچوں کو بدتہذیبی اور بدتمیزی نا سکھائیں، آپ نے اپنے دور میں کیا کیا؟ کون سا منصوبہ لگایا۔ شہباز شریف کو داد دوں گا کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، ان کی ہمت ہے کہ انہوں نے ملک کو بچایا ہے، عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، 1990 میں جب پہلی بار وزیراعظم بنا تو اس وقت جو کام کیا اس کا ثمر ہمیں ملا۔ دریں اثناء میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ آپ نے یہ سارے جبر تحمل سے برداشت کیے، جعلی جھوٹے مقدمات کا آپ نے سامنا کیا، آپ نے کبھی نہیں کہا کہ فلاں میر جعفر، فلاں غدار ہے۔ اداروں کے خلاف کیا کیا بدترین زبان استعمال کی گئی۔ توڑ پھوڑ کی گئی۔ دیکھتی آنکھ نے کبھی ایسا دلخراش منظر نہیں دیکھا۔ بھٹو سولی پر چڑھ گئے کسی نے جی ایچ کیو کی طرف نظر نہیں کی۔ محترمہ بینظیر شہید ہوگئیں کسی نے جی ایچ کیو کی طرف کبھی دیکھا تک نہیں۔ آپ کو تین مرتبہ معزول کیا گیا کبھی آپ نے اپنے کسی ورکر کو ایک لفظ نہیں کہا۔ صبر اور تحمل سے کام لیا۔ یہ ہے وہ نواز شریف جو پاکستان کا صرف سیاستدان نہیں بلکہ پاکستان کا ایک مدبر ہے۔ ہمارے کئی لوگ ہارے کئی جیتے لیکن یہ کیا کہ جو ہارے وہ غلط ہے اور جو جیتے وہ ٹھیک جیتے، یہ ہے وہ دوغلا پن، کے پی میں ان کی جو اکثریت آئی ہے تو کیا وہاں ساری کی ساری دھاندلی ہوئی ہے، پنجاب میں جہاں ہم جیتے ہیں تو وہ دھاندلی اور جہاں ہارے ہیں تو وہ ٹھیک ہے، یہ ہے وہ دوغلا پن، یہ ہے وہ تکبر، یہ ہے وہ رعونت، یہ ہے وہ اپنی ذات پاکستان سے اوپر۔ اپنی ذات کو پاکستان سے اوپر کر دینا یہ کبھی کسی نے سوچ اختیار نہیں کی۔ یہی سوچ ہے جس نے آج پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ انتخاب کے بعد صدر پاکستان ایک بار پھر آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، آئین کو تار تار کر رہے ہیں۔ اجلاس بلانا ان کاآئینی فریضہ تھا اس کو انہوں نے اگنور کیا اور جس طرح ماضی میں عمران نیازی کے اشارے پر عدم اعتماد کے ووٹ کے موقع پر انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی پھر وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کے پی میں حلف لیا جا رہا ہے تو وہاں آئینی ہے اور یہاں پر آئینی نہیں۔ کے پی اسمبلی آئینی ہے اور یہ اسمبلی آئینی نہیں ہے، یہ دوہرا معیار ہے جس نے کاری ضرب لگائی ہے۔ ہم نے 16 مہینے کی حکومت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ورنہ آج ہم یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ آج اگر پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا تو یہ میاں محمد نواز شریف کی لیڈرشپ میں 16 مہینے کی حکومت تھی ۔ ہم نے آخری دنوں میں جو فیصلے کئے ان کی وجہ سے نگران حکومت کے دور میں پاکستان متوازن رہا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے دعوت دینے پر ان کے شکرگزار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی ارکان بھی یہاں موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان اور اس کے عوام مشکل میں ہیں۔ تمام مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ عوام کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مل کر مسائل کا حل نکالیں۔ قومی اتفاق رائے سے جمہوریت اور پارلیمان کو فعال کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سپیکر کے امیدوار غلام مصطفیٰ شاہ ہوں گے۔ذرائع کے مطابق اسمبلی سیکرٹریٹ کے بعد صدر نے بھی قومی اسمبلی کا اجلاس آج بلا لیا ہے۔