مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہوگا؟   


 دائرے ....اویس منیر 
munirawais854@gmail.com

وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی کا عمل جاری ہے ،پنجاب میںمسلم لیگ، سندھ میں پیپلز پا رٹی ،بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ساتھ باپ پارٹی حکومت بنانے جارہی ہیں ،خیبر پختون خواہ میں یقینی طور پر پی ٹی آئی ہی حکومت بنائے گی اور وفاق میں مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پا رٹی کے اشتراک سے حکومت بنانے جارہی ہے ،یہ امر دلچسپ ہے کہ پی ڈی ایم نما اتحاد ہی وفاق میں حکومت سنبھالنے جا رہا ہے ،لیکن پیپلز پا رٹی اس مرتبہ وفاقی حکومت میں با قاعدہ طو ر پر شامل نہیں ہو رہی ہے بلکہ صرف آئینی عہدوں کے حصول کی خواہاں ہے ،اور شاید یہی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی درست عکاسی بھی ہے کیونکہ کوئی بھی جماعت اس وقت قومی نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے بارے میں سوچا جارہا ہے ،18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں حکومتیں کرنا ہی سیاسی جماعتوں کے لیے زیادہ پر کشش ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی آمدن کا بڑا حصہ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے اور صوبے خوش رہتے ہیں اور وفاق کنگال ہو چکا ہے کیونکہ صوبوں کے متعدد خرچے جن میں کہ دفاع اور توانا ئی بھی شامل ہیں وہ وفاق کے ہی ذمہ ہیں ،شاید اسی وجہ سے صوبے کی حکومت لینے کے لیے تو سب بے چین ہیں لیکن وفاق کی حکومت لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے۔لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں نظریات اور اصولوں کی سیاست تو تقریبا ً ختم ہی ہو کر رہ گئی ہے اور پاور پالیٹیکس نے سیاست کا ایک نیا اور منفی رخ دے دیا ہے ،ووٹ کے حصول کے لیے کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس کو فخر کے ساتھ روند کر آگے بڑھا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے محسوس ایسا ہو تا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور ہماری سیاسی جماعتیں کسی بھی صورت میں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور اس وقت بھی صورتحال ایسی ہے کہ سیاست کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جارہی ہے ،کل ہی ایک ایسی خبر سامنے آئی ہے جو کہ ایک اچھی خبر نہیں ہے اور یقینا ملک کے لیے افسوس ناک ہے اور وہ خبر یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے لیدڑ نے جو کہ یقینا ایک مقبول عوامی لیڈر ہیں اور ماضی میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھی براجمان رہ چکے ہیں نے آئی ایم ایف کو ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں کہ مبینہ طور پر انھوں نے آئی ایم ایف سے الیکشن کے آڈٹ تک پاکستان کو قرض نہ دینے کی بات کی ہے ،ہمیں یہ بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ آئی ایم ایف اگر موجودہ معاشی صورتحال میں پاکستان کو قرض نہ دے تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا جس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ ملک میں نہ کسی کو کوئی تنخواہ ملے گی نہ ہی پیٹرول ملے گا ،بجلی اور گیس بھی بند ہو جانے کے قوی امکانات ہو تے ہیں ،کرنسی تاریخی گرواٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور عوام کا کوئی بھی پرسال حال نہیں ہوتا ہے میں تو کہتا ہوں کہ خدا کسی دشمن کو بھی ایسی صورتحال نہ دیکھائے لیکن بد قسمتی سے ہم ماضی قریب میں اپنے دوست ملک سر ی لنکا میں یہ صورتحال دیکھ چکے ہیں ،اور یہ صورتحال مستقبل کے منظر نامے کا بھی پتہ دے رہی ہے کیونکہ بہر حال اب ایک صوبے میں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے جارہی ہے اور امکان یہی ہے کہ صوبائی حکومت بھی بانی پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق امور سرکار چلانے میں رکاوٹ پیدا کرے گی ،اور یہ سیاسی عدم استحکام معیشت اور صوبے کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہو گا۔پاکستان کو یقینی طور پر اس وقت معاشی طور پر ایک مشکل ترین صورتحال کا سامنا ہے اور نو منتخب حکومت کو بر سر اقتدار آتے ہی مشکل فیصلے لینا ہو ں گے ،اور 300یونٹ مفت بجلی جیسے وعدے ہوا ہو کر رہ جائیں گے ،کیونکہ آئی ایم ایف پروگرا میں ایسی کسی سبسدی سے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے ،گو کہ میں پر امید ہوں کہ اس مرتبہ ہمیں حکومت کی جانب سے معیشت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تیاری ضرور دیکھنے کو ملے گی کیونکہ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2018ءمیں پی ٹی آئی اور 2022ءمیں پی ڈی ایم کی حکومت واضح طور پر بغیر حالات کو سمجھے ہو ئے اور بغیر کسی تیاری کے بر سر اقتدار آئیں تھیں ،پی ٹی آئی کے وزیر خزانہ اسد عمر تو اس دور میں یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں اور اسی کشمش میں نہ صر ف پاکستان کی کرنسی گراوٹ کا شکار ہو ئی اور معیشت تنزلی کا شکارہ ہو ئی اور کچھ اسی طرح کا حال پی ڈی ایم کا بھی تھا اگرچہ کہ الٹا حساب تھا مفتاح اسماعیل نے بر سر اقتدار آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو اپنایا لیکن چند ماہ بعد ہی اسحاق ڈار نے اس پروگرام کو معطل کر دیا ،بہر حال ماضی میں جو کچھ ہوا اب ماضی کو دوہرانا نہیں چاہیے ،معیشت کو نقصان پہنچانے والا کو ئی بھی اقدام کسی صورت میں بھی نہیں اٹھانا چاہیے ،کچھ ماہرین کا یہ خیال تھا کہ شاید یہ منقسم مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کام کرنے پر مجبور کرے گا لیکن ایسا ہو تا ہو ا دیکھائی نہیں دے رہا ہے ،لیکن وقت کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام اور ملک کے مفاد میں مفاہمت کی طرف جائیں ،بات چیت کریں اور ریاست کو بہتر انداز میں چلانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں ،جمہوریت راستے نکا لنے کا نام ہے اور بات چیت سے ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ،اس سمت میں سنجیدگی سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔زاتی انا? ں کو ریاست اور عوام سے بڑا نہیں کیا جانا چاہیے ،یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی ہماری ضرورت بھی ہے۔

اویس منیر    …دائرے

ای پیپر دی نیشن