کیا آپ خادمہ اعلیٰ پنجاب بن سکیں گی ؟


یاسمین فرخ
مریم نواز صاحبہ کا وزیر اعلی پنجاب بننا اورپاکستان کی سیاست میں ایک تاریخ رقم کرنا بلا شبہ پاکستانی خواتین کے لیے نہایت حوصلہ افزاء بات ہے۔ اس تبدیلی کی پاکستان جیسی سوسائٹی میں اشد ضرورت بھی تھی جہاں اقتدار کے ایوانوں میں مردانہ بالادستی مسلّط رہی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ان کے دور اقتدار میں خواتین کی سیاسی و معاشی امپاورمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے گی جیسے کے پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے دور میں بہت سے اقدامات کئے گئے تھے۔
 نو منتخب وزیر اعلی مریم نواز صاحبہ کے لیے جیسا کہ وہ خود بھی جانتی ہوں گی اقتدار کا یہ سفر بہت کٹھن ثابت ہونے جا رہا ہے۔ قرضوں میں ڈوبے ملک میں جہاں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات،مہنگائی ، بے روز گاری، مایوس اور بھٹکی ہوئی نوجوان نسل جیسے بڑے بڑے ایشوزنے پاکستان کو مسئلستان بنا دیاہے وہیں ان کے سامنے ایسی اپوزیشن سراپامحاذ آرائی کے موڈ میں موجود ہو گی جو اخلاقیات سےکلی طور پرعاری بد زبانی اور بد کلامی میں کمال ملکہ رکھتی ہے۔جن کا کام قدم قدم پر خاتون وزیر اعظم کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی کرنا ہو گا۔
اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے جو روڈ میپ دیا وہ خاصی وسعت لیے ہوئے ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ روڈ میپ توقعات کے مطابق لیکن ممکنات سے دور دکھائی دیتا ہے۔ خدشات موجود رہیں گے کہ وہ ان توقعات اور وعدوں کو پورا کر بھی پائیں گی کہ نہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ نیت ہو تو نا ممکن بھی نہیں۔
پنجاب ایک بہت بڑا صوبہ ہے آبادی کے حوالے سے بھی اور انتظامی طور پر بھی اس صوبے کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے بہترین گورننس پہلی ضرورت ہے جس کے لیے انقلابی اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔جیسے کہ کا بینہ کا سائز چھوٹا رکھنا ایسے وزراءکا چناﺅ کریں جو ان کے وڑن کو آگے لے کر چلنے کے لیے تیار ہوں اور ان کی کارکردگی پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے۔انہوں نے کرپشن کے لیے زیرو ٹالرنس کی بات کی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا وعدہ اور کٹھن ترین اقدام ہے۔ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ الیکشن میں کروڑوہا روپے لگا کے جیتنے والے کیونکر چاہیں گے کہ انہیں اقتدار ملے اور وہ اس کے مزے ہی نہ لوٹیں۔بیس کروڑ لگائیں ہیں تو چالیس کروڑ کیوں نہ کمائیں۔نو منتخب وزیر اعلیٰ نہ جانے اپنے اس نعرہ کو عملی شکل کیسے دیں پائیں گی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے وعدے تو بہت سوں نے کئے لیکن یہ وفا کبھی نہ ہو سکے۔
ابھی تو صرف اداروں کی ورکنگ ہی بہتر کر پائیں تو یہی بڑا احسن کام ہو گا۔ہمارے سرکاری اداروں کا جو حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔فرعونوں سے بھری نوکر شاہی اور سرکاری اداروں میں وہ کام ہوتے ہی نہیں جن کا ان اداروں کو مینڈیٹ دیا گیا ہوتا ہے۔انہوں نے خود سیکرٹریٹ کا دورہ کر کے مشاہدہ کر ہی لیا کہ یہاں اپنے کام کےلئے کتنی سنجیدگی پائی جاتی ہے۔سرکاری ملازمین کو فرض شناس اور وقت کا پابند بنانا ہی جان جوکھوں کا کام ہو گا۔
ا±نہوں نے جس طرح پرواز بھری ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن یہ پرواز کہیں نمائشی پروگرامز ثابت نہ ہوں۔ لہذااسی سپیڈ اور اسی جذبے کو حقیقی معنوں میں برقرار رکھنے کے لئے انہیں اب خادمہ ءاعلیٰ بننا ہو گا۔ ابھی تک وہ اپنی چال ڈھال اور بول چال سے ایک شہزادی اور مہا رانی کا تاثر پیدا کر رہی ہیں۔ ان کے انداز گفتگو میں کہیں کہیں وہ رعونت اور تکبر بھی جھلکتا ہے جو ہم نے ساڑھے تین سال نیازی کی شخصیت میں دیکھا۔ انہیں ڈاون ٹو ارتھ والا امیج بنانا ہو گا۔انہیں عام لوگوں میں بیٹھنا ان کے دکھ درد سننا ہو گا جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کیا کرتی تھیں۔انہیں گاﺅں گاﺅں جا کر جھونپڑیوں میں بیٹھ کر لوگوں کا دکھ درد سننا ہو گا۔

 ہمیں یاد ہو گا کہ بھارت کے ایک صوب مہاراشٹر کی وزیر اعلی مایا وتی سائیکل پر ہی گاﺅں گاﺅں گھوما کرتی تھی ان کے ہاتھ میں اسٹول ہوتا تھی۔ سائیکل سے اتر کر وہ اسٹول پر ہی بیٹھ کر میٹنگ کر لیا کرتی تھیں رات ہوتی تو گاﺅں ہی کے کسی گھر میں خاتون خانہ کے ساتھ اپنی چارپائی لگوا لیتی۔ وہ دو سے زائد عرصہ تک اپنے صوبے کی وزیر اعلیٰ رہی۔ ایک مدت کے دوران اتحادی حکومت قائم ہوئی تو اقتدار کا یہ فارمولا طے ہوا کہ انہیں اور ان کی اتحادی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو چھ چھ ماہ کے لیے وزیر اعلی بنایا جائے گا۔ پہلے چھ ماہ مایا وتی کے لیے مختص کئے گئے تو وہ گھبرا گئیں۔ جس پر ان کے سیاسی گرو کاشی رام نے کہا کہ " مایا وتی تمہیں چھ ماہ میں چھ سال کا کام کرنا ہو گا "۔ اس آدیش پر انہوں نے کمر کس لی اور میدان میں گود گئی۔ ممتا بینر جی( سابق وزیر اعلی بنگال، انڈیا) اوررابڑی دیوی( سابق وزیر اعلی بہار،انڈیا) ایسی خواتین تھیں جنہوں نے عوامی خدمت میں نہ ساڑھی اور شلوار قمیض کی فکر کی اور نہ بناﺅ سنگھار کی طرف دھیان تھی۔ان خواتین نے اپنی گورننس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر سالہا سال راج کیا۔ ہماری وزیر اعلیٰ چاہیں تو ان خواتین کے طرز ہائے حکمرانی سے استفادہ کر سکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...