حکومتی اتحادی ٹیم اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان مذاکرات میں اسمبلیاں 16 مارچ سے پہلے تحلیل کرنے‘ انتخابات 90 دن میں کرانے اور نگران وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ کے نام متفقہ طور پر طے کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی تحلیل اور ترقیاتی فنڈز کے اجراءکے حوالے سے ڈیڈلاک برقرار رہا‘ البتہ اس بات پر بھی اتفاق ہو گیا کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل حکومتی ٹیم اور ڈاکٹر قادری کے مابین طے پانے والے معاہدے کو قانونی شکل دی جائیگی۔ یہ مذاکرات گزشتہ روز تحریک منہاج القرآن سیکرٹیریٹ لاہور میں ہوئے جس کے بعد مذاکراتی ٹیم اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے مشترکہ پریس بریفنگ میں مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر تحلیل کرنا خلافِ آئین ہو گا جبکہ ہم کوئی غیرآئینی اقدام نہیں کرنا چاہتے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس موقع پر باور کرایا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے معاملہ میں ہم قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہم سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سمیت کوئی بھی ایکشن لے سکتے ہیں۔ فریقین نے ان مذاکرات کو کامیاب قرار دیا۔ مذاکرات میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ آئندہ سات سے دس دن میں اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائیگا۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 63, 62 کے مطابق امیدواروں کی سکروٹنی کیلئے 30 دن مقرر کئے جائینگے اور نگران حکومتوں کا قیام پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت سے ہو گا۔ اس سلسلہ میں مذاکرات کا اگلا دور 31 جنوری کو منہاج القرآن سیکرٹیریٹ میں ہی ہو گا۔
گزشتہ روز کے مذاکرات میں حکومتی مذاکراتی ٹیم اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مابین جن معاملات پر اتفاق رائے کا اظہار ہوا‘ یہ تمام معاملات ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے مابین پہلے ہی طے پا گئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کے معاملہ میں اب ڈاکٹر طاہرالقادری کے مو¿قف میں خاصی لچک نظر آرہی ہے اور وہ اب دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے آپشن پر بھی آگئے ہیں‘ اسکے باوجود اسمبلیوں کی تحلیل کے وقت‘ نگران حکومتوں کی باہمی مشاورت سے تشکیل اور امیدواروں کی آئین کی دفعہ 62, 63کے مطابق سکروٹنی کیلئے ایک ماہ کی مدت کے تعین پر حکومت کا ڈاکٹر طاہرالقادری سے متفق ہونا ڈاکٹر طاہرالقادری کی اسمبلیوں سے باہر سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے کی چغلی کھاتا نظر آرہا ہے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری خود انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہی نہیں! اور انہوں نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اگر حکومت فی الواقع ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نگران حکومتوں کی تشکیل سے متعلق معالات طے کرتی ہے تو یہ اقدام نہ صرف آئین کے منافی ہو گا بلکہ اسمبلیوں میں موجود اپوزیشن کو غیراہم سمجھنے کے بھی مترادف ہو گا جبکہ 20ویں آئینی ترمیم کے تحت نگران حکومتوں کی تشکیل حکومت اور اسمبلیوں میں موجود اپوزیشن کے اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت الیکشن کمیشن کی تحلیل کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کا تقاضا اسکے غیرآئینی ہونے کی بنیاد پر تسلیم نہیں کر رہی تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی مشاورت سے اسمبلیوں کی تحلیل اور نگران حکومتوں کے قیام کے قطعی غیرآئینی اقدام پر وہ کیسے متفق ہو گئی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے پورے جمہوری نظام اور اس سے وابستہ حکمرانوں کو چیلنج کر رہے تھے‘ اس وقت میاں نواز شریف نے تمام اپوزیشن قائدین کو رائےونڈ مدعو کرکے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے اور انتخابات مو¿خر یا ملتوی کرانے کی کسی سازش کو کامیاب نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کرکے ایک طرح سے حکمرانوں کو تقویت پہنچائی مگر حکومتی اتحاد خود انہی ڈاکٹر طاہرالقادری کی گود میں جا بیٹھا جو جمہوری نظام اور حکمرانوں کے بخیئے ادھیڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا عین انتخابی عمل کے مراحل میں ملک واپس آنا اور ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کا نعرہ لگا کر لانگ مارچ اور دھرنے کی صورت میں اودھم مچانا بذات خود معنی خیز ہے جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ وہ پہلے سے طے شدہ کسی ایجنڈے کے تحت ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کرکے ملک و قوم کو انتخابات سے دور لے جانا چاہتے ہیں جبکہ اب انکی حکومتی اتحاد کے ساتھ ”گِٹ مٹ“ کی بنیاد پر یہ تاثر بھی پختہ ہو رہا ہے کہ وہ عوام کی جانب سے راندہ¿ درگاہ قرار پانے والی حکمران پیپلز پارٹی کو سہارا دینے کیلئے عین انتخابات کے مراحل میں ملک واپس آئے ہیں۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری فی الواقع حکومتی اتحاد کے ایک مہرے کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں تو یہ جمہوری اقدار کے نام لیواﺅں کیلئے انتہائی بدقسمتی کی بات ہو گی۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز پشاور میں ایک جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہوئے یقیناً اسی تناظر میں سوال اٹھایا ہے کہ حکومت ڈاکٹر طاہرالقادری کے کہنے پر اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو پھر جمہوریت کہاں گئی؟
اس وقت اصل تشویش بھی یہی ہے کہ آج حکومت کی جانب سے ایک غیرمتعلقہ پریشر گروپ کو امور حکومت و مملکت میں اہمیت دی جا رہی ہے تو کل کو کوئی بھی دوسرا پریشر گروپ اسی طرح پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے پہنچ کر اپنے دھرنے یا کسی دوسرے احتجاجی پروگرام کے ذریعے دباﺅ ڈال کر حکومت سے کوئی بھی غیرقانونی اور غیرآئینی کام کرا سکتا ہے جس میں نہ آئین و قانون کی حکمرانی اور نہ ہی عدل و انصاف کی عملداری کا کوئی تصور باقی رہے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جن انتخابی اصلاحات کا تقاضا کر رہے ہیں‘ ان میں سے بیشتر کیلئے تو پہلے ہی پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے بل میں معاملات طے کر دیئے گئے ہیں اس لئے حکومت کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے بلاجواز اور آئین سے متضاد تقاضوں کو تسلیم کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں الیکشن کمیشن کے وضع کردہ انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری حاصل کرنی چاہیے جو انتخابی اصلاحات سے متعلق ایک درست اور جائز اقدام ہو گا۔ اگر حکمران اتحاد یہ جانتے ہوئے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری سے انتخابی معاہدہ کر رہا ہے کہ آئین کی دفعہ 63, 62 کے تحت انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کی صورت میں انکے قائدین سمیت انکے آدھے سے زیادہ امیدوار ویسے ہی فارغ ہو جائینگے تو پھر حکمرانوں کو اپنے لئے کچھ تو فائدہ نظر آرہا ہو گا جس کی بنیاد پر وہ حقیقی اپوزیشن کو نظرانداز کرکے ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ اگر یہ فائدہ انتخابات کے مو¿خر ہونے کی صورت میں حاصل کرنا مقصود ہے تو یہ باہمی ملی بھگت سسٹم کو ڈی ریل کرانے کی سازش ہی قرار پائیگی۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ اب انکی بے تدبیریوں سے جمہوریت کی بساط الٹی تو ملک کو شاید انکی زندگی میں جمہوریت کی منزل دوبارہ حاصل نہیںہو پائے گی۔ اگر حکمرانوں نے ”نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ کے فلسفہ کے تحت ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ منتخب ایوانوں سے بالا بالا معاملات طے کئے ہیں تو اس میں سارا نقصان ان کا اپنا ہی ہو گا جبکہ تاریخ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے ایسے کرداروں کو کبھی معاف نہیں کریگی۔
اسمبلیوں کی تحلیل اور مشاورت سے نگران حکومتوں کی تشکیل پر حکومت اور طاہرالقادری میں اتفاق....کیا یہ اتفاق ملک و قوم کو انتخاب اورجمہوریت سے دور لے جانے کیلئے ہوا ہے؟
Jan 29, 2013