جنرل پرویز مشرف امریکی دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ ان کا آغاز اور انجام امریکی محبت اور الہٰی انتقام کا نشان ہے۔ گو آج بھی ملک میں پرویز کی پالیسی کارفرما ہے جس کا مرکزی نقطہ امریکہ نوازی اور دین و وطن سے غداری ہے۔ پاکستان میں حکومت پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ ن اور ق کی۔ ہر دو صورت حکمران پالیسی میں تبدیلی کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔ یہ اخباری بیان بازی بھی ڈرون حملوں کی طرح اے این پی کی ہو یا ایم کیو ایم کی‘ امریکی اجازت سے ہے۔ اور ان کی حالت زار ایسی ہے کہ امریکہ کے ساتھ امریکہ کا دم اور قوم کے ساتھ قوم کا غم کھاتے ہیں اور بہرطور ہمارے حکمران بھی امریکہ کی طرح دوغلی پالیسی کا جھولا جھول رہے ہیں۔ ان کا انجام کیا ہو گا‘ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نظر۔
خوددار‘ جوہری اور نظریاتی پاکستان امریکی نیو ورلڈ آرڈر پالیسی (امریکی عالمی بالادستی) کے خلاف دو دھاری تیز تلوار ہے۔ جو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو کسی طور بھی قبول نہیں۔ امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت یا آمریت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے فقط امریکہ نواز حکمرانیت اور ریاستی سے غرض ہے۔ امریکہ کو خدشہ شاہانہ مزاج لوح سیاستکار اور صنعتکار سے نہیں۔ اسے خوف ایوبی اور ضیائی فوج سے ہے۔ جو امریکہ کو ’’نہ‘‘ کہنے کا یارا کر سکتے ہیں۔ یہ ’’آقا نہیں‘ دوست‘‘ کتاب لکھتے ہیں اور پاکستان کیلئے جوہری‘ جہادی اور نظریاتی پالیسی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان میں فوجی پالیسی کے دو پہلو ہیں۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیاء الحق عظیم نیشنلسٹ تھے جبکہ جنرل پرویز مشرف خود ساختہ یا نام نہاد امریکی دباؤ کے تحت بے نظیر انٹر نیشنلسٹ تھے۔ امریکہ کو زرداری اور نوازی دور میں فوج کے اندر دوسرے پرویز مشرف کی اشد ضرورت رہی ہے۔ امریکہ نے اس ضمن میں حسین حقانی سکینڈل اور طاہر القادری مظاہروں کا سہارا بھی لیا۔ فوج کے اعلیٰ افسران اور اداروں کو امریکی تانے بانے کے ذریعے نشانہ بھی بنایا گیا۔ فوج کے اندر (وقت مقررہ میں) پرویزی جانشین کی نایابی نے امریکی غیظ و غضب کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جبری معزولی خودساختہ جلاوطنی اور اہتمامی محفوظ وطن واپسی کے بعد بھی ’’مطلوبہ خدمات‘‘ سرانجام نہیں دے سکے۔ دریں صورت امریکی نامرادی نے امریکہ کو نہ صرف پھاپھا کٹنی بنا دیا بلکہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے گی بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ پاکستان میں آج بھی طاقت کا مرکز فوج اور ISI ہے۔ جو جنرل پرویز مشرف کے ’’فریادی بیانات‘‘ کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ پرویز مشرف نے کئی بار بیان دیا ہے کہ فوج میرے ساتھ ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر فوج میں دوسرا پرویز مشرف نہیں ملتا تو اسے ایوبی اور ضیائی فوج اور ISI سے بھی کوئی محبت نہیں لہٰذا پرویز مشرف کی عدالتی رسوائی فوج اور ISI کی کمزور بے بسی کا اظہار ہے جو فوج اور ISI کے قومی و ملی امور میں بے وقعتی اور بے وقاری کی عکاس بھی ہے۔
مذکورہ بالا پس منظر کے باوجود پرویز مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کا مقدمہ امریکی نیو ورلڈ آرڈر پالیسی کا حصہ ہے۔ فی الحقیقت یہ مقدمہ جمہوریت اور جمہوری پارلیمان کی بالادستی کا نمونہ بھی ہے۔ جس کو آئین شکنی کا نام دیا گیا ہے مگر حکمرانوں کا یہ بھی آئینی فرض ہے کہ وہ پاکستان میں قرآن و سنت کے نفاذ اور خلاف اسلام آئین سازی سے نہ صرف خود باز رہیں بلکہ سزا بھی مقرر کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کا ٹرائل امریکی آشا اور الہیٰ انتقام یا احتساب ہے۔ پاکستان کی تاریخ شاید ہے کہ اللہ و رسولؐ نے پاکستان کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچانے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ امریکی آشا اور نیو ورلڈ آرڈر کا دوسرا نمونہ حسینہ واجد کا بنگلہ دیشی ہے۔ جہاں کرنل فاروق‘ ملا عبدالقادر شہید اور دیگر عظیم محب دین و وطن کو غیر آئینی و قانونی جنگی جرائم ٹریبونل بنا کر سزائیں دیں گئیں۔ دنیا کے کسی بھی الہٰی یا انسانی قانون کے تحت اپنے دین اور وطن سے محبت اور جانثاری جرم نہیں۔ عالمی برادری نے پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ عراق‘ افغانستان‘ مصر‘ شام‘ الجزائر‘ فلسطین‘ لبنان‘ سوڈان بلکہ تمام عالم اسلام کیلئے دین پر مبنی حب الوطنی کو جرم بنا دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا معاملہ الٹ ہے۔ یہ دین اور وطن دونوں کے غدار اعظم ہیں۔ یہ بے رحم اور ظالم ہونے کے ساتھ امریکی چھتری تلے قومی و ملی فساد کا سبب بھی بنے رہے ہیں۔ جنرل پرویز نے دنیا اور اتحادی عالمی برادری سے محبت کی۔ ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کی قومی و ملی وحدت اخوت کو شدید نقصان پہنچایا۔
جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل اور امریکہ
Jan 29, 2014