خبر چھپی ہے کہ سعید احمد کو سٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر بنا دیا گیا ہے۔ اس نے سودی نظام کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ اپنے اس ارادے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے‘ یہ تو وقت بتائے گا۔ سعید احمد‘ مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور میں میرا کلاس فیلو رہا ہے۔ وہ ذہین سٹوڈنٹ تھا۔ ہم نے اس سکول سے 1964ء میں میٹرک کیا۔ میٹرک کے امتحان سے قبل جب گروپ فوٹو اتاری گئی تو سعید احمد کلاس انچارج مولوی عبدالحق (ایم ایم اے حق) کے ساتھ کرسی پر بیٹھا تھا اور ہم پیچھے کھڑے تھے۔ پیچھے کھڑے ہونیوالوں میں محمد اسحاق ڈار (موجودہ وزیر خزانہ) بھی شامل ہے۔ سکول کے دور میں یہ محمد اسحاق تھا۔ ’’ڈار‘‘ بعد میں لکھنا شروع کیا۔ سعید احمد نے اس دور میں شاعری بھی کی اس لئے اپنے نام کیساتھ ’’چمن‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ اسکی رہائش سنت نگر (گھوڑا ہسپتال کے قریب) تھی۔ مکان چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہم دونوں گھوڑا ہسپتال کے سامنے لان میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ اسے گپ شپ نہیں کہنا چاہئے‘ میں اس سے پڑھنے جایا کرتا۔ ایک ہی جماعت میں ہونے کے باوجود وہ مجھے پڑھایا کرتا تھا۔ ذہین اتنا تھا کہ نصابی علم کے علاوہ اس نے سکول ہی کے دور میں علم عروض سیکھا۔ علم عروض کے بارے میں مجھے بھی اس نے کچھ جانکاری دی۔ کالج کی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ بینکنگ کی طرف چلا گیا اور شاعری پیچھے رہ گئی۔
بہرکیف بات بلاسود بینکاری کی ہو رہی تھی کہ سعید احمد نے اس کام کا آغاز کر دیا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں یہ بحث بہت زوروں پر تھی کہ اسلام نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے‘ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں بعض نے کہا کہ اس سے مراد سود مفرد ہے۔ سود در سود (سود مرکب) نہیں۔ ایک گوشہ سے یہ آواز بلند ہوئی کہ کسی کو نجی ضروریات کیلئے قرضہ دے کر سود لینا تو حرام ہے لیکن کمرشل انٹرسٹ جائز ہے۔ کمرشل انٹرسٹ سے مراد ہے کسی کو تجارت کی غرض سے قرض دینا۔ بعض نے کہا کہ بینک کا سود جائز ہے۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمن نے اس موضوع پر مقالہ تھا جو ماہنامہ فکر و نظر کی نومبر 1963ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کریم کی رو سے ربوا کی صرف وہ شکل حرام ہے جو اضعافاً مفعفہ ہو جائے۔ یعنی ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ سود در سود (سود مرکب) تو حرام ہے لیکن سود مفرد حرام نہیں۔ربوا کی بہت سی شکلیں ایسی ہیں جنہیں قرآن کریم حرام قرار دیتا ہے لیکن (بدقسمتی سے) ہماری مروجہ شریعت اسے حلال قرار دیتی ہے۔ مثلاً زمین کی بٹائی یا مضاربت یعنی کاروبار میں ایسی شراکت جس میں ایک پارٹی محض سرمایہ پر منافع وصول کرتی ہے یا تجارت میں جس قدر بھی منافع لیا جا سکے‘ ہمارے ارباب شریعت اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں اس لئے وہ ربوٰ کی تعریف ایسی کرینگے جس کی رو سے یہ شکلیں ربوٰ کی شق میں نہ آسکیں۔ سرمایہ دار طبقہ‘ بلامحنت روپیہ حاصل کرنے کا اس قدر خوگر ہو چکا ہے کہ محنت کے تصور سے انہیں پسینہ آجاتا ہے اس لئے وہ ربوٰ کے قرآنی تصور کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے۔ سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ ہمارا موجودہ معاشی نظام غیر قرآنی ہے۔
آپ سوچئے کہ کیا اس طرح ممکن ہے کہ ہمارا نظام تو غیر قرآنی رہے اور ہم اس کے اندر رہتے ہوئے ربوٰ کے مسئلہ کا کوئی اطمینان بخش حل تلاش کر لیں۔ اسی قسم کی کوشش ہم نے اس سے پہلے اپنے جاگیرداری اور زمینداری دور (عہد عباسیہ) میں کی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے زمین کی بٹائی‘ مضاریت‘ تجارت میں غیر محدود منافع وغیرہ کو جائز قرار دے کر اپنے آپ کو فریب دے لیا۔ بینکوں کے سود وغیرہ کے سلسلے میں اس وقت جو مخالفت قدامت پرست طبقہ کی طرف سے ہو رہی ہے اسکی وجہ یہ نہیں کہ یہ حضرات اسے اسلامی نظام معیشت کے خلاف پاتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بینکوں کے سود کا مسئلہ اس وقت موجود نہیں تھا جب ہماری فقہ مرتب ہوئی ہے۔ اسے اب ’’جائز‘‘ کی فہرست میں داخل کرنا ان کے نزدیک ’’بدعت‘‘ ہے۔ اگر یہ شکل اس وقت موجود ہوتی تو جس طرح زمین کی بٹائی اور مضاربت وغیرہ جائز قرار دے دی گئی تھیں‘ ممکن ہے یہ بھی اسی فہرست میں شامل ہو جاتا۔ بنک کا سود تو بٹائی وغیرہ کے مقابلے میں استحصال (EXploitation) کی بہت نرم شکل ہے۔
چند سوال ہیں جن کے جواب محمد اسحاق ڈار‘ سعید احمد اور دیگر معاشیات کے ماہر دے سکتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر کئی اسلامی ممالک میں اسلامی بینکاری شروع ہوئے عرصہ دراز ہو چکا ہے مگر روایتی بینکاری کے مقابلے میں اسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
پاکستان کا موجودہ بدعنوان مالیاتی نظام جس میں شفافیت اور دیانت داری کی کمی ہے‘ وہ رکاوٹ نہیں بنے گا؟ وہ بدعنوان کاروباری حضرات جو اپنے قرضے معاف کرانے کے چکر میں رہتے ہیں‘ کیا وہ اس نظام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے؟ کاروباری ماحول اور سماجی معاشی نظام اس کیلئے سود مند ہے اور کیا کھاتہ دار اس ماحول میں نفع اور نقصان کی بنیاد پر اسلامی بینکاری میں کھاتے رکھنے پر رضامند ہو سکیں کیا کاروباری طبقہ تعاون کرے گا۔ ہمارا جو ملکی اور غیر ملکی قرضہ ہے وہ اس راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؟