تاریخ شاید ہے کہ قوموں کے عروج زوال میں تعلیم نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ یہ امر طے شدہ ہے کہ سائنسی علوم ہی قوموں اور ملکوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور یہی علوم آج بھی قوموں کی ترقی اور خوشخالی کی ضامن ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی بےسوی صدی میں ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صدی میں سائنس کی ترقی میںاہم ایجادات ہوئیں بےل گاڑیوں اور گھوڑے گاڑیوں میں سفر کرنے والے انسان ہواﺅں کے دوش پر آڑنے لگے،یہ ترقی تعلیم کی وجہ سے ہوئی، آج کا انسان چاند تک پہنچ گیااور برسوں کے کام مہینوں ،گھنٹوں کے کام منٹوں اور منٹوں کے کام سیکنڈوں میں ہونے لگے جبکہ کمپیوٹر کی ایجاد نے بھی تہلکہ مچا دیا،اس کی وجہ بھی تعلیم ہے۔آج جو بھی کام اتنی جلدی ہونے لگا ہے ماضی میں اس کا تصور بھی نہ تھا۔ یہ سب تعلیم بلکہ سائنس کے کمالات ہیں۔ سائنس کی ترقی بنی نوع انسان کے لئے بہت سی سہولتیں اور فوائد لائی ہے۔ آج کا انسان گزشتہ زمانہ کے مقابلہ میں زیادہ اسودہ خوش اور مطمئن نظر آتا ہے۔ آج کا انسان اپنے چھوٹے سے گھر میں پوری دنیا کے ساتھ رہتا ہے کمپیوٹر کابٹن دبانے سے یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ دُنیا میں کیا ہو رہا ہے یعنی وہ اردگرد کے ماحول سے باخبر ہے ۔دُنیا میں بہت سے لوگوں نے مقام حاصل کیا ، نام کمایا اور اپنے ملک وقوم کا سر فخر سے بلند کیا، یقیناً یہ سب کچھ تعلیم کی بدولت ہوا۔گزشتہ دنوں ایک نو سالہ بچے نے تعلیمی میدان میں معرکہ مارااورکم عمری میںاولیول کرکے ورلڈریکارڈ قائم کیا۔
روشن ہوئی یہ ملت تیرے نام سے منظور
رہ پائے گی نہ مستقل یہ اب شبِ دیجور
اس وقت ملک جہاں دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے وہاں خوشی کی خبر یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل یقیناً روشن ہے، گزشتہ کئی سالوں سے پاک وطن کے نونہال بازی لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے انشاءاللہ ۔ یوں تو پہلے بھی پاک وطن کے بہت سے بچوں نے ریکارڈ قائم کئے جوشہ سرخیوں سے اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیںلیکن حال ہی میں جس بچے نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیایقیناً قابل ستائش اور قابل تحسین ہے،راولپنڈی کے رائے حارث منظور نے صرف9 برس کی عمر میں او لیول میں کامیابی حاصل کر کے ایک نیاورلڈ ریکارڈ قائم کر دیاہے 9 سالہ حارث منظور نے کیمبرج یونیورسٹی سے او لیول کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ یہ پاکستان یا ایشیا کا نہیں بلکہ دنیا کا واحد پاکستانی لڑکا ہے جس نے صرف 9 سال کی عمر میں سائنس کے تمام مضامین (طبیعات، کیمیا، حیاتیات اور ریاضی) میں کامیابی حاصل کی۔حارث16اگست 2004ءکو پیدا ہوا اس نے 2012ءمیں صرف اس لئے سکول چھوڑا تاکہ گھر پر اس کے والدین اس ناقابل حصول ہدف کو حاصل کرنے کے لئے پڑھا سکیں۔ ”او“ لیول 11سال پر محیط پروگرام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حارث کا جڑواں بھائی راولپنڈی کے ایک سکول میں گریڈ 3 کا طالب علم ہے۔ اس سے قبل چنیوٹ کی ایک لڑکی ستارہ نے 11 سال کی عمر میں اے لیول میں سائنس کے 3 مضامین میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس نے بھی او لیول میں کیمیا کا پرچہ 9 سال کی عمر میں دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
حارث کی خواہش ہے کہ اب بیرسٹر بنے۔ بیرسٹر بننے کے لئے اب اسے صرف 4 سال درکار ہیں اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گیا تو وہ دنیا کا کم عمر بیرسٹر ہو گا۔ حارث کے والد رائے منظور ناصر کے مطابق برٹش کونسل اسلام آباد کے امتحانی مرکز میں اس کا امیدوار نمبر 344 ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حارث نے ایک نجی سکول سے 2012ءتک پڑھائی کی تھی اس کے بعد وہ گھر پر ہی پڑھائی کرتا رہاپڑھائی میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے نہایت کم عمر میں یہ امتحان پاس کیا۔ او لیول میں کامیابی کے لئے عام عمر 17 یا 18 سال ہوتی ہے۔ رائے منظور کے مطابق حارث نے ناظرہ قرآن مجید مکمل کر لیا ہے اور 30 پارے اس نے 5 سال کی عمر میں حفظ کرلئے تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ قانونی ڈگری کے حصول کیلئے اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ پڑھ کریقیناً آپ ننھے منے دوست بھی نام پیدا کرنے کے خواہش مند ہوں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔پڑھائی میں دلچسپی رکھنے والا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے اورچاہتا ہے کہ وہ بھی تعلیمی میدان میں اپنا اپنے والدین سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک وقوم کا نام روشن کرے اور اس کے لئے وہ دن رات محنت بھی کرتا ہے کیونکہ محنت شوق اور لگن انسان کو فرش سے عرش تک لے جاتی ہے جبکہ محنت کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔آج کے جدید دور میں چھوٹے چھوٹے بچوں نے ورلڈ ریکارڈ قائم کر کے نہ صرف اپنی ذہانت کا لوہا منوایا بلکہ پوری دُنیا میں اپنے پیارے وطن پاکستان کا نام روشن کیا۔ماضی میں طالب علموں کو وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو آج کے جدید دور میں ہیں یہی وجہ تھی کہ اُس وقت طالب علم پاسنگ مارکس حاصل کر کے مطمئین ہو جاتا تھا بہت کم بچے ایسے تھے جو پوزیشن حاصل کرتے اور انہیں بآسانی اچھے کالج میں داخلہ مل جاتا تھا خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ہر طالب علم پوزیشن حاصل کرتا ہے،اگرپوزیشن نہیں ملتی تو اتنے نمبرضرورمل جاتے جس سے اچھے کالج میں داخلہ لینا اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہتا کیونکہ اب تو ایک ایک نمبرسے پوزیشن بدل جاتی ہے اور وہی بچہ اچھے کالج میں سکالر شپ حاصل کر سکتا ہے یا داخلہ لے سکتا ہے جو میرٹ پر ہوخوش قسمتی یہ ہے کہ اس جدید دور میں کوئی سفارش نہیں چلتی آج کے دور میں سب سے بڑی سفارش طالب علم کی قابلیت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بچوں کا مستقبل روشن ہے آنے والے وقتوں میں اُس شخص کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی جو زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو گا۔اس لئے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ابھی سے محنت کرنا ہو گی،سرکاری وغیر سرکاری سکولوں میں سالانہ امتحان کا سلسلہ دسمبر سے وسط مارچ تک جاری رہتا ہے آپ کے سالانہ امتحان سر پر ہیںاس کے ؟ لئے آپ کو نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔