ہنگو ”شیر“ کے نام

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم نے تتلیوں ، جگنوﺅں کے دیس جانا ہے
پیاری ماں
ذرا یہ تو بتا مجھ کو
وہ جگنو کیا ہوئے؟ وہ تتلی نجانے کہاں جا سوئی؟
جو یہ کہہ کر گیا تھا یہ دیس ہے جگنو اور تتلی کا ، مگریہاں نہ خوش رنگ بوٹے ہیں نہ وہ سنہری شامیں یہاں تو ہر طرف ماحول میں بارود کی بو ہے!
پیاری ماں ذرا یہ تو بتا مجھ کو ۔۔وہ جگنو اور تتلی میں کہاں سے ڈھونڈ کر لاﺅں؟
میرے بچے!
وہ جگنو تو نجانے کونسی راہوں پہ جانکلا
وہ تتلی زخم زخم، خون میں ڈوبی
اپنے پروں کے نوچے جانے کا ماتم ہی کرتی ہے۔
باغوں کے جھولے ویراں ہوئے
اب ہر ماں بچوں کے باہر جانے سے ڈرتی ہے
نجانے کونسا اندھیرا اس دیس میں چھایا ہے
پیاری ماں
دھیرج رکھ ۔۔۔کبھی کوئی کہہ کر گیا تھا
کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی ذرخیز نکلے گی
میں اس مٹی کا بچہ ہوں
کہ اپنے من کا سچا ہوں
دیس میں جب تک ہم جیسے شیر بیٹھے ہیں
خوش رنگ بوٹے بھی کھلیں گے، سنہری شامیں بھی اتریں گی،ظلمتوں کی یہ شب اک روز پگھلے گی،امن اور محبت کی وہ صبح اک روز نکلے گی
پیاری ماں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم نے جگنوﺅں کو تتلیوں کو اپنے دیس لانا ہے
ہم نے جگنوﺅں کو تتلیوں کو اپنے دیس لانا ہے
(ظہور الصباح صدےقی)

ای پیپر دی نیشن