اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) عام تاثر کے برعکس شمالی وزیرستان کے نہایت محدود علاقہ میں صرف فضائی آپریشن کیا جا رہا ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ متاثرہ علاقہ گنجان آباد ہونے کے باعث بڑی تعداد میں مقامی لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ مستند ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی، اس قبائلی ایجنسی کے صرف ایک سب ڈویژن، میر علی میں کی جا رہی ہے۔ میر علی میں بھی داوڑ قبائل کا علاقہ کارروائی کا ہدف بنا ہے۔ ایجنسی کے باقی دو سب ڈویژن اور بڑے قبیلے اتمان زئی وزیر قبیلے کا علاقہ اس جوابی کارروائی سے محفوط ہے۔ شمالی وزیرستان کے مقامی ذرائع کے مطابق جوابی کارروائی میں ڈرون پاک فضائیہ کے جیٹ طیارے اور آرمی ایوی ایشن کے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ سردست کوئی بڑی زمینی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی فوج کی بڑی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق داوڑ قبیلہ پرامن ہے لیکن ان کا علاقہ اس لئے ہدف بنا ہے کہ یہ میر علی بازار کے قریب واقع ہے، شدت پسندوں نے بھی زیادہ تر اسی علاقہ میں ٹھکانے بنا رکھے تھے کیونکہ یہاں نقل و حرکت کافی آسان ہے۔ آبادی بھی گنجان ہے اور قیام کی سہولیات میسر ہیں۔ فضائیہ کی بمباری میں اگرچہ شدت پسندوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، وسط ایشیائی اور ازبک نسل کے جرمن اور مقامی شدت پسند بھی مارے گئے لیکن بے گناہ شہری آبادی کا بھی جانی نقصان ہوا، لوگوں نے عورتوں اور بچوں کی لاشیں دفنائیں؟ ابتدائی بمباری کے بعد داوڑ قبائل کی نقل مکانی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب بھی جاری ہے۔ ممکنہ کارروائی کے خوف سے وزیر قبائل کے لوگ بھی بنوں منتقل ہو رہے ہیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق کم از کم پچاس ہزار افراد شمالی وزیرستان کے میر علی سب ڈویژن سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ متاثرین کی رجسٹریشن ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔