لندن (بی بی سی) قبائلی علاقوں میں جاری جنگ سے بچنے کی خاطر نقل مکانی کرنے والے افراد کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلیوں کی اکثریت اپنے نقصانات کا بڑا سبب پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خاتمے کی حکمتِ عملی کو مانتی ہے۔ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ڈیڑھ لاکھ خاندان اب بھی علاقے کی غیر یقینی صورتِ حال میں بہتری اور امداد کے منتظر ہیں۔ رائٹرز کے مطابق تاحال لوگ بڑی تعداد میں علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف جا رہے ہیں، ممکنہ آپریشن کی اطلاعات کے بعد نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد میں ایک نجی تھنک ٹینک ’فاٹا ریسرچ سنٹر‘ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوج کی حکمتِ عملی سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں بہت ابہام ہے۔ سروے کے مطابق 93 فیصد قبائلی اپنے مکانات اور دیگر املاک کی تباہی کے لیے فوجی کارروائیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ تقریباً 70 فیصد متاثرین اپنے علاقوں میں امن قائم ہونے کی صورت میں گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ خیبر پی کے میں واقع جلوزئی کیمپ کے متاثرین کے ایک رہنما گلاب خان نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں عمران خان کی تحریکِ انصاف کی حکومت کے رویے سے متعلق بھی شکایت کی۔ گلاب خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت ایک جانب تو دھرنوں کے ذریعے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے لیکن اس سردی میں ان متاثرین کو دوسری جگہ منتقل کر کے ان پر ڈرون حملے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں عالمی قوانین کے تحت ان کا حق دیا جائے۔