ایک بہت پرانی کہاوت ہے Opportunity Wakes a Thief (ممکن موقع سے چور پیدا ہوتا ہے) اس کہاوت کی سچائی میں شک کی گنجائش نہیں۔ ایک نجی ٹی وی نے سڑکوں پر عام جرائم کرنے والوں پر پولیس کے چھاپے کی کارگزاری دکھائی اور قریباً آٹھ مجرم گرفتار کئے۔ انکے قبضے سے قریباً دو کلو سونے کے زیورات،کچھ پستول‘ خنجر اور فون کے علاوہ قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ برآمد ہوا۔ ان میں گرفتاری کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں تھی نہ کوئی مزاحمت تھی۔ ایک مجرم نے اپنے انٹرویومیں بتایا کہ وہ جرم کا کاروبار تقریباً 8 سال سے کر رہا ہے اور اپنے دیگر ساتھیوں کو جیل میں ملا اور سب نے مل کر ایک گروہ بنا لیا ان میں چند مہارت رکھنے والوں نے جیل میں باقیوں کی ہنر مندی میں اضافہ کیا۔ وہ بالکل پریشان نہیں تھے۔ تھانے میں اکثر ان کو کوئی تکلیف نہیں دی بلکہ پورا تعاون ملتا ہے۔ تھانے کی کمائی میں اضافہ ہو جاتا اور جیل خانے کے بعد جلد ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں اور آخر کار عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ اس میں سب کا تعاون شامل ہوتا ہے اور شہادتیں خرید کر کمزور کر دی جاتی ہیں‘ یوں بہت سے لوگوں کی روزی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ گفتگو کرنیوالے نے کہا وہ چار سال سے بغیر کسی پکڑ اور رکاوٹ کے اپنا کام کر رہا ہے اور زندگی نہایت آرام دہ اور آسودہ ہے۔
ان حالات کا کون ذمہ دار ہے۔ برف تو ہمیشہ اوپر سے پگھلتی ہے مگر اس کا پانی نیچے سے بہتا ہے اسکی سرپرستی حکمرانوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے کی پشت پناہی سے شروع ہوتی ہے جو کہ شکار ہونیوالے لوگوں کو دھمکی دیکر جاتے ہیں کہ اگر پولیس میں رپٹ لکھوائی تو ان سے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا۔ عام شہری تو خاموش ہو جاتا ہے۔ اور یوں جرائم میں روز مرہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس کا تدارک بالکل ممکن ہے صرف حکمرانوں کا عزم چاہئیے۔ پہلا قدم ہر بڑے شہر میں چند ایسے مراکز بنا دیئے جائیں جہاں جرم کی رپورٹ بلا خوف اور سہل طریقے سے درج ہو سکے تاکہ تھانہ محرر اور دیگر عملہ اپنے علاقے کے مکینوں کو ہراساں نہ کریں اور فوراً FIR درج کریں۔ عام طور پر کسی علاقے میں جرم دوسرے علاقے یا دوسرے شہروں کے لوگ پولیس کی سرپرستی میں انجام دیتے ہیں جس علاقے میں جرم دوسرے علاقے یا دوسرے شہروں کے لوگ پولیس کی سرپرستی میں انجام دیتے ہیں۔ جس علاقے میں موٹر سائیکل سواروں کے فون چھیننے، زیورات چڑانے گاڑیوں یا موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں کمی نہ ہو وہاں کے تھانہ عملہ کیخلاف انضباتی کارروائی عمل میں لائی جائے اور کڑی سزائیں دی جائیں۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانیوالے مجرم پولیس مقابلہ میں مارے جانے چاہئیں تاکہ وارداتیں کرنے والے کچھ خوف کا شکار ہوں جو لوگ پکڑے جائیں ان کی صبح شام پولیس کے ’’لتر‘‘ سے الٹا الٹا کر کر اچھی خاطر کی جائے۔ یا تو یہ مجرموں کے ساتھ ہو یا SHO صاحب کیساتھ تاکہ جرم میں شامل تمام حضرات اس خاطر سے مزا چکھیں اور تھانے میں Tattoo والی سیاہی سے ماتھے پر یہ تحریر کر دیا جائے کہ ’’چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘‘ یہ انمٹ سیاہی میں اور وہ معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ اس کیلئے حکمرانوں کو قانونی ہدایات دینی ہونگی اور سارے معاشرے کی نفرت ان جرائم کے تدارک کا باعث بنے۔ ان لوگوں کی تصاویر نمایاں جگہوں پر لگا دی جائیں۔ تھانے میں خاطر تواضع کے بعد۔ جیل میں صبح شام یہ خاطر جاری رہنی چاہئیے عدالتوں کے تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ انکی ضمانت نہ ہو سکے اور یہ زیادہ سے زیادہ عرصہ قید بامشقت کی صعوبت سے گزریں۔ انکی تصاویر شہر کے ہر تھانے کی البم میں موجود ہوں تاکہ جرم کی رپورٹ کرنیوالے کو مجرموں کو پہچاننے میں مدد مل جائے۔ جب تک یہ جرائم اور مجرم معاشرے میں نفرت کا باعث نہ بنیں اور معاشرے کی شمولیت نہ ہو گی یہ جرائم ختم نہیں ہونگے۔
دوسری قسم کے جرائم میں بنکوں اور بڑے کاروباری اداروں کو ڈکیتی کے ذریعہ لوٹنے والی وارداتیں ہیں۔ یہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ممکن نہیں ایک وجہ تو پولیس کی قابل ستائش کارکردگی ہے۔ دوسرا معاشرہ کی صدق دلی کے موثر اقدام، انگلستان اور امریکہ میں ہر بینک یا بڑا سٹور پولیس کے ساتھ فوری رابطہ کے نظام سے منسلک ہے۔ پولیس سٹیشن میں Electronic System کے ذریعہ الارم بول اٹھتا ہے۔ یہاں بھی یہ ممکن ہے۔ ہر بنک یا تجارتی ادارے میں ایک پوشیدہ سوئچ یا بٹن لگا ہو جہاں بنک لوٹنے کے شروع میں ہی بٹن دبانے سے فوراً دروازوں کے آہنی جنگلہ نما شٹر کے دروازے یا گزر گاہ بند ہو جائے جو صرف پولیس سٹیشن یا سکیورٹی ایجنسی کے پاس چابی لگانے سے بجلی کے سوئچ کے ذریعے ہی کھل سکیں۔ ساتھ ساتھ ایک بلند آواز والا الارم بول اٹھے جس کا مطلب ہو کہ بینک میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور نہ کوئی اندر سے نکل سکتا ہے نہ کوئی باہر سے اندر آ سکتا ہے جب تک پولیس یا سکیورٹی کا عملہ آ کر اس کو نہ کھولے۔ ان اقدامات کے علاوہ سکیورٹی کیمرے بنک میں آنے جانیوالے کی تصاویر بنائے۔ یوں ڈاکہ ممکن نہیں رہے گا۔