سید سردار احمد پیرزادہ
"پاکستان میں اب بڑی شخصیات پیدا نہیں ہو رہی ہیں"۔ یہ افسردہ جملہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔انگریز اپنے ٹیلنٹڈ دشمن کو بھی دوست بناکر اُس کا ٹیلنٹ اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ انگریزوں کے برعکس ہم اپنے ٹیلنٹڈ دوستوں کو بھی دشمن بنا کر انہیں ضائع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس گھٹیا، مفادی اور منافقانہ ٹرانسفارمیشن میں ہم نے ایسے ایسے ظلم برپا کئے کہ انسانی سروں کے مینار بنانے کا ظلم بہت چھوٹا دکھتا ہے۔ باصلاحیت لوگوں کو اُن کا مقام نہ دینا اور میرٹ کیساتھ ریپ کرنا ہمارے حکمرانوں اور بااختیار افراد کی من پسند عادت ہے۔ صلاحیتوں اور میرٹ کی جڑ مارنے کا یہ سلسلہ ہر شعبے میں 68 برسوں سے جاری ہے۔ اِس بدبختی سے ہماری درس گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ درس گاہیں بڑے آدمی پیدا کرنے کی ضامن ہوتی ہیں۔ ہماری بیشمار درس گاہوں میں قدرت کے کرشمے موجود ہیں۔ حکمران اور بااختیار افراد اِن روشن ستاروں کو دم گھونٹ کر مارتے رہتے ہیں تاکہ اِن میں سے کوئی بڑا آدمی نہ بن پائے اور یہ کہا جاتا رہے کہ پاکستان میں بڑی شخصیات پیدا نہیں ہو رہیں۔ ایسی ایک بہت بڑی درس گاہ کی مثال سرگودھا یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کو رقبے یا تعداد وغیرہ کے اعتبار سے بڑا نہیں لکھا جارہا بلکہ یہاں کے موجودہ اساتذہ، سکالروں اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کے حیرت ناک ٹیلنٹ نے اِسے بین الاقوامی مقابلے کی ایک بڑی یونیورسٹی بنا دیا ہے۔ یہ بات صرف فکشن یا محاورہ نہیں بلکہ ثبوت موجود ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی پنجاب کے لمبے چوڑے علاقے کی واحد یونیورسٹی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طرف فیصل آباد، لاہور، گجرات، راولپنڈی اور دوسری طرف ملتان، بہاولپور وغیرہ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے درمیان واحد یہی ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔ یونیورسٹیاں اپنے اساتذہ، پی ایچ ڈی سکالرز اور محققین سے پہچانی جاتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری جب سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو یہاں پرانے وقتوں کے اِکا دُکا پی ایچ ڈی سکالرز تھے۔ اُنکے گزشتہ سات برسوں کے دوران اب تقریباً ڈھائی سو سے زائد پی ایچ ڈی ڈاکٹرز موجود ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار سو سے زائد تعلیمی سٹاف ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی میں آٹھ بڑی فیکیلٹیز کے تحت 137 پروگرامز چل رہے ہیں جن میں تقریباً 53 ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ہیں۔ کم و بیش چار سو تعلیمی انسٹی ٹیوٹ سرگودھا یونیورسٹی سے تعلق جوڑے ہوئے ہیں۔ طالب علموں کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہے۔ اس اعتبار سے یہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی پبلک یونیورسٹی ہے۔ شاید کوئی اس بات پر یقین نہ کرے کہ نوجوان طلباء کی اتنی بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود اِس یونیورسٹی میں کبھی ہنگامہ آرائی یا ہڑتال نہیں ہوئی اور طلباء سڑکوں پر نہیں آئے۔ سرگودھا یونیورسٹی ایک ریسرچ یونیورسٹی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں بہت سے تحقیقی کمالات ہوئے۔ مثلاً گھروں میں استعمال ہونیوالا کوکنگ آئل چند ماہ بعدپرانا ہو جاتا ہے جو ہارٹ اٹیک کی 80 فیصد وجہ ہے۔ اس یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کی محقق مریم خان نے ایک سال تک تازہ رہنے والاصحت مند کوکنگ آئل تیار کیا ۔ "خوش آب" کے نام سے بہترین منرل واٹر بنایا گیا جس کی ابتدائی بڑی مانگ ابوظہبی سے آچکی ہے۔ باکمال سائنس دان ڈاکٹر محمد امین نے دنیا کی پہلی "پیراسیٹامول "ایجاد کی ہے اس ٹیبلٹ کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے۔ اس "پیراسیٹامول" کے فارمولے کو امریکہ بھجوایا گیا جنہوں نے اس حیرت انگیز ایجاد کی تصدیق کی۔ سرگودھا یونیورسٹی جلداسے مارکیٹ کریگی۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں بھی نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ یہاں کے پرنسپل پروفسیر اشرف خان نیازی اور انکی ٹیم نے بڑی آنت کی جان لیوا بیماریوں کے لیے ایک متبادل ٹیوب تیار کی ہے جس کی انسانی جسم میں کامیاب پیوند کاری کے باعث بہت سے مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی زرعی کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال جانتے ہیں کہ سرگودھا پاکستان کا کیلیفورنیا ہے۔ لہٰذا یہاں "سٹرس فیملی" کے پودوں پر بہت تحقیق کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر راشد مختار بلال نے بیجوں کے بغیر والے کینو اور مُسمی کے پودے اگا لئے ہیں۔ وہ اس زرعی کالج میں پاکستان کی پہلی "سرٹیفائیڈ نرسری" کے انچارج بھی ہیں۔ یعنی پودوں میں جو بیماریاں نسل درنسل چلتی ہیں یا نئی پیدا ہوتی ہیں ان سب سے محفوظ پودے ا س نرسری میں تیار ہو رہے ہیں۔ اسی سرٹیفائیڈنرسری میںایسے حیرت انگیز آلوتیار کیے گئے ہیں جسکے استعمال سے کینسر کی بہت سی بیماریوںسے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عامر علی نے گنے کی ایک نئی قسم پیدا کی ہے جس کی لمبائی 11 فٹ ہے۔اس گنے کی فی ایکڑ پیداوار سے عام گنے کی نسبت تین گنا زیادہ چینی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اسی سائنس دان نے زیرو کیلوریز کے ساتھ تین سو گنا زیادہ مٹھا س والا چینی کا متبادل بھی تیار کیا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے یونیورسٹی کو تحقیق کے ساتھ ساتھ فلاحی تعلیمی ادارہ بنانے کیلئے میرٹ پر آنیوالے سینکڑوں یتیم اور حافظ قرآن طالب علموں کو مفت تعلیم دینی شروع کی ہے۔ پروفیسر صاحب کے بقول اگر ایسے طالب علموں کو یونیورسٹی داخلہ نہ دیتی تو ان میں سے بیشمار خودکش دہشتگرد بن جاتے۔وہ مستقبل میں باصلاحیت معذور طالب علموں کوایسی ہی خصوصی رعایتیں دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیںجو پاکستان کی آبادی کا تقریباپندرہ فی صد ہیں۔ یونیورسٹی کا ایک عجیب انکشاف یہ بھی ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں یونیورسٹی کی فیسوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ان سب معجزات کے بعد یقینا یہ خیال آتا ہے کہ تعلیم اور پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے حکمران اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کو بہت سہولتیں دے رہے ہونگے تاکہ اس یونیورسٹی کے محققین اپنی ایجادات سے پاکستان کا نام دنیا میں زیادہ سے زیادہ روشن کریں مگر ٹیلنٹڈ اور باہمت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کہنے لگے کہ "سیاست دان اُن سے ناجائز بلوں پر دستخط کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکار کی صورت میں یونیورسٹی کو سخت حالات سے دوچار کردیا جاتا ہے"۔ انہوں نے افسردگی سے کہا کہ "بیشمار نئی ایجادات والی پاکستان کی دوسری بڑی اِس یونیورسٹی کو ملنے والا سرکاری بجٹ خیبر پختونخوا کی ایک نسبتاً چھوٹی یونیورسٹی سے بھی کم ہے"۔ مذکورہ بالا مثالوں کو پڑھ کر کیا ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ پاکستان میں بڑی شخصیات پیدا نہیں ہورہی ہیں؟