ہر فرضی خاکے اور تصویر میں توہین کا کچھ نہ کچھ پہلو تو ہوتا ہی ہے کیونکہ یہ اصل حقیقت کے جتنا بھی قریب کیوں نہ ہو اصل نہیں ہوتا۔ نقل ہمیشہ اصل اسٹیبلشمنٹ کم تر ہوتی ہے۔ بچے عموماََ چھیڑ چھاڑ کی خاطر کیری کیچرنگ کو بطور حربہ استعمال کرتے ہیں ایک بھدی تصویر خاکے یا کسی ان گھڑت ذی روح کے اسیکیج پر لکھ دیا تمہارا ابو۔ بس پھر چل سو چل لڑائی، نزاع، انتقام کی پھل پھول، کانٹے دار بیل پنپ پڑی۔ ابتدا میں جب کوئی ہاتھ میں قلم تھامنا اور کاغذ پر لکیر ڈالنا شروع کرتا ہے یا سلیٹ پر کچھ حرف نما نقش ابھارتا ہے تو ماں باپ کو بڑی خوشی ہوتی ہے خاکہ اور تصویر تو بچے کی ذہنی نشوونما اور تربیت کی علامت سمجھا جاتا ہے جدید میڈیا میں کیری کیچرنگ یا خاکہ طنز و مزاح، چوٹ اور اظہار و سبق کا اشاراتی ذریعہ بن گیا ہے بعض اوقات چند لکیریں خاکہ یا منظر لمبے چوڑے مضمون سے بھی زیادہ گہرا فوری کام اور اثر دکھا دیتا ہے اظہار کے دیگر ذرائع کے علی الرعم اس میں بہت زیادہ تہذیب و ادب اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ نشتر آنا فاناَََ توپ تفنگ اور کلہاڑے کا روپ دھار لیتا ہے۔
بچے کا بنایا ہوا خاکہ باالعموم محدود اثرات رکھتا ہے مگر کسی صورت تحریر سے کم نہیں ہوتا اگر کوئی خاکہ معاشرے میں ہیجان اور خلفشار کا سبب بن جائے تو اس کو اظہار کی بچگانہ حرکت قرار دینے کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ گویا ہلکے پھلکے انداز میں کھینچی گئی لکیر بھی نفرت کی حد فاصل بن سکتی ہے۔لفظ و تحریر کی مد میں میڈیا بے حد محتاط ہے کیونکہ لفظ و حرف کے معانی مقرر ہیں تحریر کے ذریعہ طنز و اہانت اور مقام کے سارے پیرائے متعین حدود رکھتے ہیں تشبیہ و استعارے حتی کہ خیال تک کا تجاوز اپنی ابتدا اور انتہا کے درمیان کسی نہ کسی مرحلے پر گرفت میں آجاتا ہے اور اس کا ازالہ بھی واضح طور پر آسانی سے ممکن ہوتا ہے لیکن خاکوں کا مسئلہ الگ ہے کسی لکیر اور دائرے یا رنگ کے معانی مقرر نہیں نہ تو جیہہ ممکن نہ ہاشیہ آرائی نہ بحث و دفاع کی کوئی صورت! بس ایٹم بم کی طرح چلا اور سب کچھ تہس نہس۔جہاں تک مقدس لوگوں کا تعلق ہے حق تو یہ ہے ان کا اجتماعی احترام سب پر لازم ہے جیسے ایک معاشرے یا قوم کا ہیرو سب کیلئے محترم ہوتا ہے، ہیرو روشن ستارے ہوتے ہیں خصوصاََ مذہبی معلم، پیغمبر اور اصلاحی رہبر جن کا کردار ہی معاشرے کی فلاح و خدمت ہوتا ہے۔
اس ضمن میں اسلام کی تعلیم حتمی اور افضل ترین ہے اور وہ یہ کہ فرضی خاکوں اور تصاویر سے مکمل اجتناب کیا جائے کیوں کہ تصویر کشی سے ہی بالاخر تنقید اور توہین کی گنجائش نکل سکتی ہے دیگر مذاہب بڑی شان اور آب و تاب سے اپنی برگزیدہ ہستیوں کی تصویریں حتی کہ مجسمے تک کی نمائش کرتے ہیں اسلام میں نہ تو اپنی شخصیات کی ایسی نمائش ممکن ہے اور نہ ہی دیگر مذاہب کی ہستیوں کی تصاویر کی اجازت ہے انکی توہین تو گناہ ہے مغرب میں مذہب کی طرح مقدس ہستیوں کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں لیا جاتا ہے ہنسی طنز مذاق کی حدود بہت وسیع ہیں اسلامی معاشرہ جہاں تصویر کشی ہی ممنوع ہے وہاں مقدس لوگوں کی اہانت تو سرے سے خیال خام ہے مسلمان یہ ہتھیار چلا ہی نہیں سکتا سو مخالفین کے ہاتھ میں یہ یک طرفہ اجارہ ظلم و ستم موجود ہے جسکے ذریعے وہ جب چاہیں اسلامی دنیا کا سکون غارت کر سکتے ہیں ۔
بے بس مسلمان جواب میں بس واویلا احتجاج کر سکتے ہیں دشمن اسی بے بسی کو نشانہ مشق بنا کر اپنے اہداف آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسی بے بسی اور مجبوری میں کیا کرنا چاہیے مختصراََ یہ کہ اسوہ حسنہ سے بہتر جواب موجود ہی نہیں۔ مضبوط قوت ارادی، ذہنی و نفسیاتی لحاظ سے اخلاقی برتری و بلندی، مومنانہ برداشت اور مہذبانہ احتجاج کے ذریعہ دشمن کو نیچ پست اور مکروہ ثابت کر کے نفسیاتی احساس کمتری کا شکار کر دیا جاتا جائے۔ گالی کا جواب گالی کے بجائے دشنام طراز کو احساس گناہ میں دبا دیا جائے خاموشی اور برداشت بہترین طمانچہ ہوتا ہے تشہیر اور رد عمل سے گالی دینے والا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اسے جیت کا احساس میسر آتا ہے۔ اس معاملے کا ضمنی پہلو بھی ہے کہ ایک توہین تو وہ ہے جو اسلام کے دشمن کرتے ہیں مگر دوسری وہ جو ہم اپنے عمل سے رسولؐ کی تعلیمات کی نفی کے ذریعہ کر رہے ہیں جو خاکہ اور تصویر ہم اپنے نبی اور دین کی بناتے ہیں کیا وہ قابل فخر و انبساط ہے؟ شاید نبیؐ کی سیرت عملاََ اجا گر کرنے سے ہمارے دشمن متاثر ہو کر توبہ تائب اور گرویدہ اسلام ہو جائیں!