کوئٹہ (صباح نےوز) بلوچستان میں مختلف مقامات پر ایسے متعدد خفیہ تربیتی مراکز کا انکشاف ہوا ہے جہاں شدت پسند کمسن لڑکوں کی برین واشنگ کر کے انہیں مبینہ طور پر خود کش حملوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ مغربی نشرےاتی ادارے نے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ تربیت مکمل ہونے کے بعد شدت پسند ان خودکش حملہ آوروں کو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں بھی اپنے اہداف پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ان خفیہ کیمپوں سے تربیت پانے والے درجنوں خودکش حملہ آوروں کو مختلف اہداف پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے، جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اس پر 11 خفیہ کیمپ بلوچستان کے جنوب مغربی اور شمال مشرقی علاقوں پشین کچلاک، کلی سیگی، کلی لمڑان، یارو، ہرنائی زیارت، قلعہ سیف اللہ، ژوب، توبہ اچکزئی، نوشکی، مستونگ، چاغی اور تفتان میں مختلف مقامات پر قائم ہیں، جہاں کمسن لڑکوں کو بڑے پیمانے پر خود کش حملوں اور دیگر تخریبی کارروائیوں کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں تربیتی مراکز چلانے والے عسکریت پسندوں کو بلوچستان میں لڑنے والی بعض کالعدم تنظیموں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ان زیر تربیت لڑکوں میں ایسے لڑکے بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف علاقوں سے اغوا کے بعد ان کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ کمسن لڑکوں کو خودکش حملوں کی تربیت شدت پسندوں کے تین مختلف گروپ فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے ایک گروپ کا تعلق افغان طالبان، دوسرے کا تعلق کالعدم پاکستانی تحریک طالبان کی جماعت الاحرار سے اور تیسرے گروپ کا تعلق ایران میں سرگرم عمل جیش العدل نامی شدت پسند تنظیم سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضلع پشین کے کلی لمڑان میں شدت پسندوں کے دو خفیہ کمپاونڈز ہیں، جہاں پہلے مرحلے میں کم سن لڑکوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور بعد میں انہیں خودکش حملوں کی تربیت کے لئے ےکلی سیگی اور کلی گانگلزئی جو کہ کلی نیو پہاڑ خان کے نام سے مشہور ہے، منتقل کر دیا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق فضل نامی شدت پسند کمانڈرکلی نیو پہاڑ خان میں زیر تربیت لڑکوں کوخودکش جیکٹیں اور دیگر تخریبی مواد فراہم کرتا ہے اور بعد میں ان تربیت پانے والے لڑکوں کو افغانستان اور شمالی وزیرستان منتقل کر دیا جاتا ہے۔پشین کے نواحی علاقے کلی لمڑان کے دو کمسن لڑکوں عبدالقدیر اور نعمت اللہ کو بھی اسی کیمپ میں تیار کیا گیا تھا اور پھر دونوں لڑکوں کو شمالی وزیرستان کے علاقے وانا میں خودکش حملوں میں استعمال کیا گیا۔ کلی کربلا کے ایک رہائشی عظمت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ایک 19 سالہ رشتہ دار حنیف کو بھی انہی شدت پسندوں نے خود کش حملے کی تربیت کے لیے اپنے پشین والے کیمپ منتقل کیا تھا تاہم قبائلی عمائدین کی مداخلت پر اسے بعد میں ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ کیمپ میں حنیف کو زین نامی شدت پسند کمانڈر کے حامیوں نے خودکش حملے کے لیے تربیت فراہم کرنے کی کوشش کی اور وہ کئی دنوں تک لاپتہ رہا۔ رپورٹ کے مطابق شمالی بلوچستان کے علاقے کچلاک کلی سیگی، کلی حبیب زئی، قلعہ عبداللہ اور توبہ اچکزئی میں مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے خفیہ تربیتی مراکز قائم ہیں۔ ان تربیتی مراکز میں خودکش حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ دیگر عسکریت پسندوں کو گوریلا جنگ کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی پر پشین کے علاقے کلی کربلا میں چند سال قبل انہی شدت پسندوں کے ہاتھوں تربیت پانے والے ایک خود کش حملہ آور نے حملہ کیا تھا۔ ایک اعلی حکومتی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے اور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ کارروائی بلوچستان میں عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے تمام کالعدم تنظیمیں منظم انداز میں یہاں کام کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے بلوچ اکژیتی اضلاع نوشکی،چاغی اور دالبندین میں بھی شدت پسندوں کے 3 تربیتی کیمپ قائم ہیں۔ یہاں سے تربیت یافتہ اکثر خودکش بمباروں کو بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی ضلع شوراوک کے راستے افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق دالبندین کے علاقے گردی جنگل اور چاغی میں بھی شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ تربیت حاصل کر رہی ہے۔
بلوچستان/خفیہ مراکز