کراچی (نوائے وقت رپورٹ) کراچی میں بدھ کے روز فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج سمیت 4افراد جاں بحق جبکہ پولیس مقابلے میں 5دہشت گرد مارے گئے۔ تفصیلات کے مطابق نامعلوم افراد نے ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج سہیل احمد کو اغوا کے بعد تشدد اور گولیاں مار کر قتل کر دیا جس کی نعش موچکو سے برآمد ہوئی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پارٹی کارکن سہیل احمد کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو پولیس، رینجرز اور سندھ حکومت نشانہ بنا رہی ہے۔ سہیل احمد کے ساتھ ہی ماورائے عدالت قتل کیے گئے کارکنوں کی تعداد 36ہو گئی متعدد کارکن گرفتاریوں کے بعد لاپتہ ہیں، وزیر اعظم آرمی چیف اور ڈی جی رینجرز صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل بند کرائیں۔کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ ہم حیدر آباد یونیورسٹی کے قیام کی خوشیاں منا رہے تھے کہ ہمارے یونٹ انچارج کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنا سب کچھ بھی اسٹیبلشمنٹ کو دیدیں تب بھی وہ ہمیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں جب بھی ہم خوشیاں منانا چاہتے ہیں یہ ان پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ ادھر سہیل احمد کے قتل کی خبر پھیلتے ہی اور یوم سوگ کے پیش نظر کراچی کے مختلف علاقوں میں دکانیں پٹرول پمپس اور کاروباری مراکز بند ہو گئے، ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے سہیل احمد نے قتل کے خلاف آج کراچی سمیت سندھ بھر میں یوم سوگ اور مکمل پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ تاجروں، ٹرانسپورٹرز تنظیموں نے ہڑتال کی حمایت کر دی جبکہ کراچی یونیورسٹی نے بی اے بی ایس سی کے آج ہونیوالے پرچے ملتوی کر دئیے۔ رابطہ کمیٹی کے رکن خواجہ اظہارالحسن نے صحافیوں کو بتایا کہ آج سندھ بھر میں پرامن مظاہرے کئے جائینگے۔ تمام دکاندار ٹرانسپورٹرز اپنی سرگرمیاں بند رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ سہیل احمد کو 24 گھنٹے قبل 2 گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ ہماری جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خواجہ اظہار نے کہا کہ سہیل احمد سوسائٹی سیکٹر کے یونٹ انچارج تھے۔ ہم نے 16 دسمبر کو ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرائی۔ اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی۔ وزیراعظم وزیر داخلہ آرمی چیف کارکنوں کے قتل کا نوٹس لیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر اور قمر منصور نے پریس کانفرنس سے خطاب اور گفتگو میں کہا کہ سہیل احمد کے قتل میں پیپلز پارٹی کے رہنما ملوث ہیں۔ بہادر آباد میں کچھ عرصہ قبل پیپلزپارٹی نے کھلی کچہری لگائی جہاں ان کے رہنمائوں کی سہیل احمد سے منہ ماری ہوئی۔ پی پی رہنما سعید چاولہ نے سہیل احمد کو دھمکیاں دی تھیں۔ اسی روز سادہ پوش اہلکاروں نے 15 دسمبر سہیل احمد کو گرفتار کر لیا۔ قمر منصور نے کہا کہ سادہ لباس میں اہلکاری گینگ چلاتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کارکن نے جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ دوسری وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایم کیو ایم کے کارکن سہیل احمد کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کر لی۔ ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری نے وزیراعظم کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے متحدہ کارکن کے قتل پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو بھی اہلکار ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ دریں اثناء ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیو نے سہیل احمد کے قتل کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی جس کے سربراہ ڈی آئی جی سائوتھ ہوں گے بتایا گیا ہے کہ سہیل احمد کی گمشدگی کا مقدمہ بہادر آباد تھانہ میں درج تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی ایم کیو ایم کے کارکن کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سے رپورٹ طلب کر لی انہوں نے کہا کہ کسی کو ماورائے قانون اقدامات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کا یوم احتجاج ملتوی کرانے کے لئے وفاقی حکومت حرکت میں آ گئی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے متحدہ کے رہنما بابر غوری سے فون پر رابطہ کر کے سہیل احمد کے قتل کی مذمت اور وفاقی حکومت کی جانب سے ملزموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ دوسری طرف مہران ٹائون میں فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہو گئے جن کی فوری شناخت نہ ہو سکی ادھر کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹائون نواب گوٹھ میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں کالعدم تنظیم کے 5دہشت گرد مارے گئے۔ جس میں دو کی شناخت حضرت گل اور حضرت علی کے ناموں سے ہوئی۔ ایس ایس پی ملیر رائو انور کے مطابق مارے گئے دہشت گرد اغوا برائے تاوان پولیو ٹیموں پر حملوں اور دہشت گردی میں ملوث تھے جبکہ حضرت علی پولیو ٹیموں پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ جن کے قبضے سے کمانڈوز یونیفارم 2خود کش جیکٹس اسلحہ پولیس ٹریننگ سنٹر رزاق آباد کا نقشہ برآمد کر لیا گیا۔ علاوہ ازیں پولیس نے پروفیسر سبط حسن اور پروفیسر شکیل اوج کے قتل میں ملوث ٹارگٹ کلر منصور کو گرفتار کر لیا ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے اور وہ لیاقت آباد کے سرکاری ہسپتال میں وارڈ بوائے ہے۔ اسی طرح فیڈرل بی ایریا میں بھتہ نہ دینے پر فیکٹری سپروائزر کو قتل کرنے والے ٹارگٹ کلر عبدالرحیم کے گینگ کے سرغنہ انور کو سرسید ٹائون جبکہ ایک ساتھی ایاز کو رحیم یار خان سے گرفتار کر لیا۔ علاوہ ازیں رینجرز نے فقیر گوٹھ سے ایک غیرملکی جاسوس کو حراست میں لے کر لیپ ٹاپ اور حساس مواد کر لیا۔ ادھر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شکیل اوج اور پروفیسر سبط حسن کے قتل کے ملزم کو ایم کیو ایم کا ورکر قراردینے کے حوالے سے ایڈیشنل آئی جی تعصب کی بنیاد پر ایم کیو ایم پر الزام لگا رہے ہیں۔ اسی پروگرام میں ایڈیشنل آئی جی غلام قادر نے کہا کہ وہ ایک پولیس افسر ہیں اور انکے لئے تمام شہری برابر ہیں۔ انہوں نے کہا پروفیسر شکیل اوج کے قتل میں سیاسی جماعت کا نام میں نے نہیں لیا بلکہ ملزم نے خود بتایا کہ اس کا متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق ہے۔ ادھر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے پروگرام میں کہا کہ وہ حلفاً کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیس کو کسی مخصوص جماعت کیخلاف کارروائی کی ہدایت نہیں دی وہ اور پی پی رہنما سعید چاولہ نے کسی رہنما کو اٹھانے کیلئے پولیس کو نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی سندھ نے سہیل احمد کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔