لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ایک اہم حکومتی شخصیت کے بیٹے کی شوگر ملز کے مینجر کے اہلخانہ کی بازیابی کیس میں ایس ایچ او چنیوٹ چودھری یونس کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بیلف نے لاہور ہائیکورٹ میں مسٹر جسٹس مظہر اقبال سدھو کی عدالت میں مینجر محمد علی کی اہلیہ اور بیٹے کو پیش کیا۔ آمنہ بی بی نے روتے بتایا پولیس نے چوبیس جنوری کو ان کے گھر چھاپہ مارا شوہر کے موجود نہ ہونے پر انہیں، بچوں کو اور بعد میں والدہ کو بھی حراست میں لے لیا اس پر ہائیکورٹ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ایس ایچ او کو عدالتی حراست میں لینے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے کہا کہ پنجاب میں کوئی ڈکیت نہیں پولیس خود ڈکیت ہے۔ پولیس کی کوئی اخلاقیات نہیں جو حکم اوپر سے ملے اسے پورا کرتی ہے۔ پولیس بچوں پر تشدد کرتی ہے بعد میں دبائو ڈال کر بیان دلاتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا پولیس کو خدا کا کوئی خوف نہیں آئی جی پنجاب بتائیں کیا ہم سب صوبہ چھوڑ کر چلے جائیں تمام صوبوں میں سے بدترین کارکردگی پنجاب پولیس کی ہے۔ آمنہ بی بی کے وکیل آفتاب باجوہ نے موقف اختیار کیا محمد علی کے پاس ملز کی بہت سی بے قاعدگیوں اور فراڈ کا ریکارڈ موجود ہے۔ پولیس نے محمد علی کے گھر اور سسرال پر چھاپہ مارا۔ جب محمد علی نہیں ملا تو اس کی بیوی اور بچوں کو ناجائز حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس نے یہ کارروائی شوگر ملز مالک کے ایما پر کی۔ عدالت نے ڈی پی او چنیوٹ اور سی آئی اے انچارج چنیوٹ کو طلب کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے محمد علی، آمنہ بی بی کی والدہ غزالہ کو بھی پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کر دی۔ فاضل عدالت نے پولیس کے نامناسب سلوکی پر اپنے ریمارکس میں کہا اس محکمے میں آوے کا آوا بگڑا ہے، کائنات میں سب سے زیادہ جھوٹ پولیس بولتی ہے۔ بازیاب ہونے والی خاتون نے فاضل عدالت کو بتایا کہ ٹیچر ہونے کے باوجود پولیس نے اس سے غلط سلوک کیا۔ اس پر متعلقہ ایس ایچ او نے فاضل عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی اور کہا کہ انہوں نے کسی کو حراست میں نہیں لیا، اس پر فاضل عدالت نے قرار دیا کہ پولیس جو زبان بولتی ہے اسے دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔