کراچی + اسلام آباد (ایجنسیاں) مشرف نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے سابق جانشین جنرل کیانی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں تاخیر کے ذمہ دار تھے جس کی وجہ سے آج ملک میں سکیورٹی چیلنجز ناقابل تسخیر بن چکے ہیں‘ آرمی چیف جب یہ دیکھے کہ حکومت غیر فعال ہوچکی ہے تو اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک انٹرویو میں سابق آرمی چیف نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک میں اس وقت سکیورٹی کے چیلنجز جو ناقابل تسخیر بن چکے ہیں اس کی وجہ ان کے جانشین جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کا دہشت گردوں کیخلاف ایکشن نہ لینا تھا۔ مشرف نے کہا کہ جنرل کیانی کی اپنی ہچکچاہٹ تھی‘ فیصلے کمزور نہیں تھے جس کی وجہ سے طالبان کیخلاف آپریشن شروع نہ کیا جاسکا۔ کیانی سے پوچھا جائے انہوں نے دہشت گردوں کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ حکومت غیر فعال ہے تو آرمی چیف کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ متحرک کردار ادا کرے جس طرح جنرل راحیل شریف نے ادا کیا تاہم جنرل (ر) کیانی اس سلسلے میں اپنی ریٹائرمنٹ تک محتاط رہے۔ وہ شاید ڈرتے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ جانے والی ہے تو اسی دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تو اس کی کیا وجہ تھی اس پر مشرف نے کہا کہ یہ ان کا اپنا بندہ تھا اس سلسلے میں فوج کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے۔ فوج ان دنوں طالبان کیخلاف کارروائی چاہتی تھی اور کیانی سے پوچھا بھی گیا کہ وہ جنگجوئوں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ ان کی مدت تعیناتی کے دوران دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں تاخیر سے ہی کام لیا گیا۔ مشرف نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ملا فضل اللہ کیخلاف 2007ء میں کارروائی کی اور اسے شکست دی۔ جب میں نے محسوس کیا کہ ایوان صدر میں مزید نہیں رہ سکتا تو پی پی دور حکومت میں اپنے اس عہدے سے الگ ہوگیا۔ موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے آج ملک میں عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ میرے خلاف عدالتی کارروائی انتقامی کارروائی کا شاخسانہ ہے۔ میرا مقدمہ انتقام پر مبنی ہے اور میں ریاست پاکستان کا واحد سابق سربراہ ہوں جس کیخلاف ماتحت عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ 2008 میں پرامن انتخابات ہوئے اور خیبر پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی، اس کے بعد ملا فضل اللہ نے 13 گرلز سکولوں کو آگ لگائی، مالم جبہ میں سیاحوں کا ہوٹل جلایا، شانگلہ ہل پار کر کے قراقرم ہائی وے تقریباً بلاک کردی مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، جب شور ہوا کہ دہشت گرد اسلام آباد سے صرف 100 میل کے فاصلے تک آپہنچے تو ان کو ہوش آیا۔ پاکستان میں فوج واحد منظم ادارہ ہے، اسی لئے راحیل شریف کو ہی عالمی رہنماؤں نے اہمیت دی، اسی لئے خارجہ پالیسی میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔ ملک میں مارشل لاء کے حوالے سے مشرف نے کہا کہ پاکستان بدترین حالات سے دوچار ہے اور اس کی معاشی صورتحال بھی بہتر نہیں، ان حالات میں ملک میں مارشل لاء کی ضرورت نہیں۔ این آر او کے حوالے سے ایک بار پھر انہوں نے کہا کہ ان کو بینظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل نہیں کرنی چاہیے تھی، اس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی، انہوں نے سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کی این آر او ڈیل کرانے کے دعویٰ کی بھی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کے نامناسب رویئے کی کوئی وجہ نہیں، انہوں نے ہر چیز کا بہترین استعمال کیا، زرداری جانتے ہیں کہ میں بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں، پھر بھی ان کو الزام دیتے ہیں اور ان کی زبان مناسب نہیں۔ وزیراعظم کے حوالے سے مشرف نے کہا کہ نواز شریف ذاتی اختلافات کو بہت آگے تک لے گئے ہیں، ان کا ٹرائل انتقامی کارروائی ہے۔ علاوہ ازیں سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری سے ملاقات میں مشرف نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے دورئہ بھارت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، پاکستان مضبوط ملک ہے، آرمی چیف درست سمت پر چل رہے ہیں۔