فوجی عدالتیں: حکم امتناعی کی درخواست مسترد‘ سب کو سنیں گے: سپریم کورٹ‘ وفاق اور صوبوں کو 12 فروری کیلئے نوٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں21ویں آئینی تر میم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں، اٹارنی جنرل اور پانچوں ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتو ں میں تفصیلی جواب طلب کر لیا جبکہ فوجی عدالتوں کے خلاف فوری طور پر حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کولاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (لاہور) کے صدر شفقت محمود چوہان کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور دلائل میں موقف اختیار کیا کہ 21ویں آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ میں مناسب بحث نہیں کی گئی اور یہ ترمیم بنیادی حقوق سے متصادم ہے، 1976ء کی آئینی ترمیم کے بعد آج تک ایسی ترمیم نہیں کی گئی جس سے بنیادی آئینی ڈھانچے کو ہی تبدیل کر دیا گیا ہو، حامد خان کا دلائل میں کہنا تھا کہ پشاور میں سکول پر دہشت گردوں کے حملہ کے بعد سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا 21 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ میں بامعنی بحث کے بغیر ہی منظور کر لیا گیا، سینٹ میں اسی دن قرارداد منظور کرلی گئی سیر حاصل بحث کا فقدان تھا۔ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق تین میں ترمیم کی گئی جبکہ آئین کی آرٹیکل 8 میں آئینی ترمیم سے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا معاملہ متاثر ہوا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کا اختیار نہیں رکھتی پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا بے لگام اور لامحدود اختیار نہیں ہے، پارلیمنٹ کسی آئینی ترمیم کے ذریعہ شہریوں کے بنیادی حقوق نہیں چھین سکتی۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سانحہ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان کے ذریعہ ملٹری کورٹس کے قیام کا فیصلہ ہوا 4 جنوری کو اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا اور 6 جنوری کو 21 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی، ترمیم پر مناسب بحث بھی نہیں کروائی گئی آئینی ترمیم سے شہریوں کے بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں آزاد عدلیہ پر بھی قدغن لگائی گئی ہے اور عدلیہ کے اختیارات کو بھی کم کر دیا گیا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ جاری کرے اور ترمیم کو کالعدم قرار دے۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم سے آئین کا آرٹیکل 21اے متاثر ہوا ہے جوکہ عدلیہ کی مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے، اور یہ چیز قرارداد مقاصد میں بھی ہے، اس سے آرٹیکل 8 بھی متاثر ہوتا ہے، انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ اگرچہ یہ ترمیم قانون بن چکی ہے لیکن بنیادی حقوق سے متصادم ہے، انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 8 جوڈیشل نظر ثانی سے متعلق ہے، ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اور عدلیہ و انتظامیہ کے اختیارات متاثر ہوئے ہیں، جسٹس مشیر عالم نے ان سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 239سے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جوکہ آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے سے روکتا ہے تو فاضل وکیل نے کہاکہ وہ اس حوالہ سے بعد میں دلائل پیش کریں گے کہ کسی بھی ترمیم میں آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، دوران سماعت لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (لاہور بنچ)کے صدر شفقت چوہان نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ فوجی عدالتوں کے کام کرنے پر پابندی لگائے یا دوسری صورت میں عدالت کیس کی جلد از جلد سماعت کو یقینی بنایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ڈیفنس کونسل کو اپنا جواب داخل کروانے کے لئے مہلت دیں گے اور فوجی عدالتوں کے کام پر پابندی سے متعلق کوئی حکم جاری نہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب کو سن کر ہی فیصلہ کرینگے۔ بی بی سی کے مطابق درخواست گزار کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ایسی ترامیم کرنے کا اختیار نہیں ہے جو اس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام سے ملک میں آئینی عدالتوں کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر بھی قدغن لگا دی گئی۔ این این آئی کے مطابق جسٹس گلزار احمد نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ اس ترمیم میں ایک فریق تھے جس پر حامد خان نے کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست کی پیروی کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اے پی سی کی طرف سے بنائی گئی قانونی کمیٹی میں میں نے کھل کر اس ترمیم کی مخالفت کی، خوش قسمتی سے میری جماعت کے 34 ارکان قومی اسمبلی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جسٹس مشیر عالم نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا آئینی ترمیم قانون ہے، حامد خان نے کہا کہ یہ مفاد عامہ سے متعلق ایک اہم مقدمہ ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہم نے آپ کو سن لیا ہے ہم اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر رہے ہیں جس کے بعد عدالت نے درحواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر وفاق اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12فروری تک ملتوی کردی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے دو ہفتے میں جواب مانگا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...