’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید اور "The Nation" کے ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری دو روز قبل گوجرانوالہ میں کسی شادی پر گئے تو شاہد رشید نے موبائل پر تمہید باندھے بغیر مجھ سے کہا ۔ ’’ سرسلیم بخاری صاحب سے بات کریں!‘‘ سلیم بخاری نے بھی سلام دُعا کے بغیر کہا کہ ’’ سر! سُنا ہے آپ مجھے عاق کرنے کی تیاری کر رہے ہیں؟۔ اگر ایسا ہُوا تو مَیں مر جائوں گا‘‘ مَیں اِس حملے کے لئے تیارنہیں تھا۔ صِرف اِتنا کہا کہ ۔ سلیم بخاری! تُم میرا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہو۔ مَیں تمہیں عاق کیسے کرسکتا ہُوں؟۔ مَیں نے تمہیں عاق کِیا تو مَیں کنگال ہو جائوں گا۔ مَیں آبدیدہ ہوگیا اور مَیں نے موبائل Off کردِیا۔
حکومتِ برطانیہ کی طرف سے علاّمہ اقبال کو خط لِکھا گیا کہ ’’ ہم آپ کو "Sir" کا خطاب دینا چاہتے ہیں؟‘‘علاّمہ صاحب نے جواب میں لِکھا کہ ۔ ’’ مَیں یہ خطاب قبول کرلوں گا لیکن اِس سے پہلے آپ کو میرے پرائمری ٹیچر مِیر حسن صاحب کو ’’ شمس اُلعلما‘‘ کا خطاب دینا ہوگا‘‘حکومتِ برطانیہ نے مِیر حسن کو ’’ شمس اُلعلما‘‘ اور علاّمہ اقبالؒ کو "Sir" کا خطاب دے دِیا۔ سلیم بخاری نے اپنی صحافت کا آغاز جولائی 1973ء میں میرے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور سے کِیا۔ وہ مجھے اپنا پرائمری ٹیچر تسلیم کرتا ہے۔ کئی سال پہلے جب وہ اسلام آباد کے ایک بڑے انگریزی روزنامہ کا ایڈیٹر تھا تو مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا کہ سلیم بخاری مانتا ہے کہ مَیں اُس کا پرائمری ٹیچر ہُوں ، اِسی لئے اُس نے مجھے سفارتی اور سیاسی حلقوں سے کئی بار ’’ شمس اُلعلما‘‘ کا خطاب دِلوایا ہے ۔ مَیں نے یہ بھی لِکھا تھا کہ سلیم بخاری ۔ میرے سارے بھائیوں سے اچھا بھائی اور سارے بیٹوں سے اچھا بیٹا ہے۔
جب تک سلیم بخاری اور اُس جیسے دوست یا میرے اپنے میرے ساتھ ہیں تو مَیں کنگال ہو ہی نہیں سکتالیکن کنگال ہونے کی ایک اور کیفیت بھی ہوتی ہے کہ جب اُس کا کوئی اپنا اُنہیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا مِلتا ہے ۔ 18 جنوری 2016ء کو لاہور سے ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے ڈائریکٹر پروگرامز حافظ عثمان احمد نے مجھے ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ ‘‘کے چیئرمین ڈاکٹر کرنل (ر) جمشید احمد خان ترین کے انتقال کی خبر سُنائی ۔مَیں نقاہت اور سردی کی لپیٹ میں پہلے ہی تھا ، مجھے مزید ’’ کانبا ‘‘ چڑھ گیا ۔ میری آنکھوں کے سامنے جواں عزم 92 سالہ ڈاکٹر ترین کا چمکتا دمکتا چہرہ آگیا۔ محبت کرنے والوں کے لئے ہر چہرہ ’’ پری چہرہ ‘‘ ہوتا ہے ۔ جناب عبدالحمید عدم ؔ نے کہا تھا …
’’ ہائے یہ لوگ، پری چہرہ لوگ!
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے ؟‘‘
1991ء میں میری والدہ صاحبہ، 1999ء میں والد صاحب، 2000 ء میں بڑی بیگم، 2006ء میں چھوٹا بھائی اور 2008ء میں چھوٹی بیگم ،جولائی 2013ء کو ڈاکٹر مجید نظامی بھی خالق حقیقی سے جا ملے لیکن موت کو تو آنا ہی ہوتا ہے ۔ ’’ حق پرستی کے جُرم میں ‘‘یُونان کے اہل اقتدار نے فلسفی سُقراط کو زہر کا پیالہ پی کر اپنی زندگی ختم کرنے کا حق دِیا تھا ۔ ایک رات قبل سقراط کے کئی شاگرد قید خانے میں آئے اور اپنے عظیم اُستاد سے کہا کہ ’’ ہم نے جیل کے منتظمین سے بات کرلی ہے ۔ ہم آپ کو بھگا کر یونان کی حدود سے دُور لے جاتے ہیں ‘‘۔ اُستاد مسکرایا اور بولا ’’ اے میرے پیارے شاگردو! کیا دُنیا میں کوئی ایسا مُلک ہے جہاں انسان مرتے نہ ہُوں؟‘‘ اگر میں بھاگ گیا تو میرے دشمن کہیں گے کہ ’’ سُقراط جھوٹا تھا‘‘۔پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید گنجؒ نے کہا تھا کہ …؎
’’جتّ دہاڑے زَن وَری ، سا ہے لئے لکھائِ
جِند ووہٹی، مَرن وَر، لے جا سی پرنائِ‘‘
یعنی جِس دِن زندگی کی سگائی کا دِن مقرر ہُوا تھا ۔ اُس کی رُخصتی ( موت کا ) دِن بھی مقرر ہوگیا تھا ۔ زندگی، دلہن اور موت ، دُلہا اور دُلہا ، اپنی دلہن کو ضرور بیاہ کر لے جائے گا ‘‘۔ مَیں نے مرنے والے اپنے ہر پیارے کے روشن روشن چہرے دیکھے ہیں ۔ انسانیت اور پاکستان سے محبت کرنے والے ڈاکٹر ، کرنل ترین کے دونوں بیٹوں ( سابق وفاقی وزیر خزانہ جناب شوکت ترین اور سلک بنک کے جناب عظمت ترین) مرحوم کی 6 بیٹیوں ، دوسرے رشتہ دارروں اورنظریاتی دوستوں/ عقیدت مندوںنے بھی آخری بار جب اپنے بزرگ/ دوست کا چہرہ دیکھا ہوگا تو کسی نے اُسے چاندکی طرح نرم روشنی بکھیرتا ہوا اور کسی نے سورج کی طرح تمتماتا ہوا محسوس کِیا ہوگا؟ اُن سب ’’زائرین چہرہ ڈاکٹر ترین ‘‘ کے لئے علاّمہ اقبالؒ بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ …؎
’’مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں ‘‘
ڈاکٹر جمشید ترین سے مَیں نے بہت کچھ سِیکھا۔ اُن کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا وہ میرے کالم کی تعریف بھی کرتے تھے اور کبھی کبھی میرے تاریخی حوالوں اور فارسی کے شعروں/ مِصرعوں کی درستی بھی کرتے تھے ۔ 8 اگست 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں اپنی کالم نویسی کا نیا دَور شروع کرنے سے پہلے بھی مَیں برادر عزیز سیّد شاہد رشید سے ملاقات کے لئے ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان حاضری دیتا تھا لیکن اُس کے بعد مختلف تقاریب میں میری شرکت اور تقاریب کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی ، ڈاکٹر ،کرنل (ر) جمشید احمد خان ترین ، سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ ، ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد اور میاں فاروق الطاف سے میری قُربت بڑھتی گئی ۔علاّمہ اقبالؒ کے روحانی مُرشد مولانا روم نے کہا تھا کہ …
’’ یک زمانے، صُحبتِ با اولیاء
خوشتراز صد سالہ طاعت بے ریا‘‘
یعنی ’’ اولیائے کرامؒ کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا، سو سال کی ریا عبادت سے بھی بڑھ کر ہے۔ان صحبتوں میں مجھے جناب محمد رفیق تارڑ سے فارسی ، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر سُننے کا اتفاق ہُوا ۔ میاں فاروق الطاف کی نظریہ پاکستان سے متعلق ’’نثری شاعری ‘‘ کو بھی ۔ڈاکٹر مجید نظامی کے جانشین کی حیثیت سے جناب محمد رفیق تارڑ کو چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ منتخب کرلِیا گیا۔ ڈاکٹر ، کرنل (ر) جمشید احمد خان ترین جناب محمد رفیق تارڑ ،ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد ، میاں فاروق الطاف اور سیّد شاہد رشید نے از خود اپنی ذمہ داریوں میںاضافہ کرلِیا تھا ۔مادرِ مِلتّ سینٹر کی کنوینر ڈاکٹر پروین خان اور سیکرٹری شعبہ خواتین ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ بیگم صفیہ اسحاق بھی خواتین میں نظریۂ پاکستان کی ترویج واشاعت کے لئے مزید فعال ہوگئی ہیں ۔
20 جون 2015ء کو مَیں علاج کے لئے لندن کے ایک ہسپتال میں داخل تھا ۔ اِس دوران جناب رفیق تارڑ اور ڈاکٹر ، کرنل (ر)جمشید احمد خان ترین ، میاں فاروق الطاف اور شاہد رشید سے میری گفتگو ہوتی تھی۔ ڈاکٹر ترین لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل ہوگئے تو انہوں نے مجھے کہا ’’ اثر چوہان صاحب! مَیں تہاڈے لئی دُعاواں کر رہیاں واں ، تُسِیں وی میرے لئی دُعاواں کرو!‘‘۔ مَیں 4 ستمبر کو پاکستان واپس آیا تو چل پھر نہیں سکتا تھا ، لیکن میرا ٹیلی فون پر ڈاکٹر ترین صاحب سے دُعائوں کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ ڈاکٹر صاحب نیک انسان تھے ۔ مَیں اُن کی دُعائوں سے صحت یاب ہوگیا۔ مَیں گنہگار ہُوں ۔ میری دُعائیں ڈاکٹر صاحب کے کسی کام نہیں آئِیں ۔ شاید اللہ تعالی اپنے پیارے بندوں کے بارے میں گنہگاروں کی دُعائیں قبول نہیں کرتا ؟۔اب میں کیا کروں؟۔