پانامہ کے پیچھے کیا ہے؟

خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے اے گرفتارابو بکر و علی ہوشیار باش ’’ اغیار کی گولی یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے سنی ہے شیعہ ، دیو بندی ہے یا بریلوی اہل حدیث ہے یا مقلد وہ سب کو مسلمان سمجھ کر ہی نشانہ بناتے ہیں عالم اسلام میں لیبیا، شام، عراق ، افغانستان کو ’’ تورا بورا‘‘ بنانے کے بعد اب ایران سے جڑا ہوا پاکستان ایک امتحان سے دو چار ہے پاکستان کیوں عالمی سازشوں کا عملی نشانہ بن سکتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ایک بڑی وجہ اس کا ایٹمی طاقت ہونا ہے۔ ’’ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘ پرانا سچ ہے اور جب تک کوئی اسلامی ملک ایٹم بم کی وجہ سے مضبوط ہے اس کے خلاف کھلی جنگ ایک بڑا رسک ہے۔ اب لگتا ہے کہ پڑوسی نے وہ رسک لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھات کے حکمران طبقے کے پیٹ میں مروڑ تو1947ء سے اٹھ رہا ہے پاکستان کو دو لخت کرنا اس منصوبے کی کڑی تھی ۔ اب گزشتہ دو دہائیوں سے بھارت کا جنگی جنون میں مبتلا طبقہ عملی اقدامات کرنے لگا ہے۔ بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد ایسا نہیں چاہتی مگر اکھنڈ بھارت کا علمبردار طبقہ اپنے عوام کو بھی گمراہ کرنے میں مصروف ہے، بمبئی دہشت گردی، پارلیمنٹ پر حملے ، سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زدگی سمیت متعدد خونی ڈرامے اور واقعات سے ایسی فضا بنانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اب تک اس کے عزائم کے سامنے دیوار بنی ہوئی ہے۔ اب عالمی منظر بدلا ہے تو ایک بار پھر بھارت کو اپنے عزائم کی تکمیل آسان نظر آنے لگی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی صورت میں ایسی سیاسی جماعت بر سر اقتدار آ گئی ہے جس کے مختلف صدور نے افغانستان ، عراق، لیبیا وغیرہ کو برباد کر کے رکھ دیا ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں داخلے سے پہلے ہی اپنے پتے شو کروا دیئے تھے ۔ اب اس کا بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ راز و نیاز پر مبنی طویل مکالمہ اور ایک دوسرے کو دوروں کی دعوت انتہائی معنی خیز ہے۔ اگرچہ امریکی معاشرہ اب بھی اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپنے کسی صدر کو مقررہ حد سے باہر نہیں جانے دیتا لیکن جب نشانہ خود مرنے کا شوق رکھتا ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان نشانہ ہے پاکستان میں مسلح افواج واحد مضبوط اور متحد ادارہ ہے لیکن صرف فوج کا مضبوط اور متحد ہونا کافی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے کو فرقہ واریت گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ ہر محلے میں مختلف فقہی عقائد کی چار چار پانچ پانچ مساجد موجود ہیں۔ چنانچہ دینی سطح پر اتحاد ممکن ہی نہیں ہے۔ ہماری تو طاقت ہی دین مصطفوی ہے۔ کیا ہمارے مذہبی قائدین کو احساس نہیں ہے کہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک والی بات کہاں ہے حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک ’’ والا تصور کیوں غائب ہے۔ مغربی جمہوری ملکوں میں سیاسی سطح پر دو بڑے پلیٹ فارم / جماعتیں بر سوں سے دکھائی دے رہی ہیں چین روس اور ایسے ہی بعض دوسرے ممالک میں تو ایک ہی جماعت کے مختلف افراد میں صلاحیتوں کی بنیاد پرر انتخابی مقابلے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاشرہ سیاسی سطح پر بھی کئی جماعتوں میں تقسیم ہے اوپر سے مذہبی بنیادوں پر ٹکڑے ٹکڑے ہے رہی سہی کسر ذات پات‘ زبان اور نسل نے پوری کر دی ہے ہزاوں ٹکڑوں میں بٹا ہوا پاکستانی معاشرہ کسی بھی حریف کے لئے کتنا آسان ہدف بن سکتا ہے اس کا احساس کس کو ہے؟ سچ یہی ہے کہ اس ساری تقسیم، ہزاروں سیاسی ، مذہبی گروپوں کی تشکیل کے پیچھے ایک ہی سبب ہوس اور صرف ہوس ہے۔ دین کے نام پر کاروبار ، سیاست کے نام پر کاروبار، روحانیت کے نام پر کاروبار، دیواروں اور رکشائوں کے عقب میں لگے روشن چہروں والے اشتہارات اس ہوس کو نمایاں کر رہے ہیں۔ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اب بھی وقت ہے کہ انفرادی طمع اور ہوس کو چھوڑ کر پوری قوم متحد ہو ، ٹرمپ نے بھی سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگایا ہے ہم تو بہت پہلے سے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا چکے تھے۔

ای پیپر دی نیشن