جس کھیت سے۔۔۔

علامہ اقبال نے نہ جانے کیا سوچ کر دہقان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روٹی
اس کھیت کے ہرخوشہءگندم کو جلادو
اس سے تو دہقان کے بھی کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔۔اس سے بہتر مشورہ ہوتا کہ بس اتنا اگاﺅ کہ اپنی فیملی کے کھانے کے کام آئے۔۔کھیت جلانے سے در اندازی¾ پولیس کا بھی خطرہ ہے۔جسے بس موقع ملنا چاہیے۔ وہ فوراً پکڑ کر تولیہ ڈال کر پریس کانفرنس میں حاضر کر کے اسلحہ بھی برآمد کر سکتی ہے۔جیسے پچھلے دن ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں ایک ملزم نے اسلحہ کی بر آمدگی کا سن کر تو لیہ سے منہ نکال کر انکشاف کیا کہ اسے تو خوا ہ مخواہ پکڑا گیا ہے۔ وہ تو غریب رکشہ ڈرائیور ہے ۔پولیس نہ جانے کیوں اس پر یہ الزام رکھ رہی ہے۔ یہاں تفریح یہ رہی کہ پولیس اس کی چہرہ پوشی کر رہی تھی جب کے وہ ہماری اینلائیٹنڈ خواتین کی طرح بے حجاب ہو نا چاہ رہاتھا۔اس شور شرابے کا انجام یہ ہوا کہ پولیس افسر نے اپنے بیان میں لچک پیدا کرتے ہوئے فرمایا کہ ابھی تفتیش ہو رہی ہے۔اگر یہ بے گناہ ہوا تو چھوڑ دیا جائے گا۔ورنہ اس سے پہلے تو اسے ملزم نہیں،بلکہ بطور مجرم پیش کیا جارہاتھا۔اس ہی لیے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھالیجیئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ہم جتنے شریف ہیں، ہمارا قلم اتنا ہے آوارہ منش ہے(ہماری شرافت کے دعوے پر یہ نہ کہا جائے”دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ“)۔قلم کی آوارگی دیکھیئے بات ہو رہی تھی کھیت کی ،یہ پہنچ گیا پولیس کی پریس کانفرنس میں۔اس لیے واپس لوٹتے ہیں اس کھیت کی طرف جس سے دہکان کو روٹی میسر نہیں۔یہ کھیت اس لیے یاد آیا کہ آجکل صارفین کو سی این جی (CNG)نہیں مل رہی۔سوال اٹھتا ہے کہ اگر علامہ آج ہم میں ہوتے تو کیا وہ یہ مشورہ دیتے کہ ع
جس پمپ سے صارف کو میسر نہیں CNG دوسرا مصرعہ ہم از خود سینسر کر رہے ہیں۔ اس سے نقص امن کا خدشہ ہے اور یہ تخریب کاری پر اکسانے کی مد میں آسکتا ہے۔اللہ جانے تعزیر پاکستا ن کی کونسی شق لاگو ہوجائے۔اس لیے خود احتسابی بہتر ہے جس کا مشورہ میڈیا کو دیا جاتا ہے اور کالم نگار بھی میڈیا میں شامل سمجھا جاتا ہے۔بہر حال صارفین پریشان ہیں کہ سی این جی دستاب نہیں۔سردیاں تو پہلے بھی آتی تھیں لیکن اب نہ جانے کس نوعیت کی ہیں کہ پریشر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس کی لوڈ شیڈنگ کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ اچانک یہ کم کیسے ہو گئی۔پہلے تو سنتے تھے کہ ہم گیس کے معاملے میں کئی سو سالوں تک خود کفیل رہیں گے۔لیکن یہ بھی بجلی کی طرح کمیاب ہو رہی ہے۔۱۹۹۹ تک ہم بجلی بھارت کو بیچنے کی بات کرتے تھے۔اچانک کیا افتاد پڑی کہ ہم اندھیرے میں ڈوبتے جا رہے ہیں جس کا حل ارباب اقتدار کی نظر میں ”رینٹل پاور“ ہے لیکن عدالت ماننے پر تیار نہیں۔گیس کی وافر مقدار کی وجہ سے حکومت نے جا بجا سی این جی کے پمپس لگوادیے اور عوام کو ترغیب دی کہ وہ اپنی گاڑیوں میں گیس کٹ لگوالیں کہ یہ سستی بھی ہے اور ماحول اور صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔عوام کے لیے فائدہ مند ہو نہ ہو، پمپس مالکان کے لیے اتنی سود مند تھی کہ ایک ایک لائیسنس کروڑوں میں دستیاب ہوا۔پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اس کو چلتا پھرتا بم قرار دیا جانے لگا۔۔پھر کمی کا رونا بھی شروع ہوا اس لیے قیمت بڑھتی گئی۔لیکن عدالت نے ڈھول کا پول کھولدیا اور معلوم ہوا کہ اس سے زیادہ منافع بخش تو کوئی بھی کاروبار نہیں۔بس جیسے ہی منافع کو کنٹرول کیا پریشر کم ہو گیا۔ لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی۔منافع میں کمی کو نقصان بتا کرپمپس مالکان نے ہفتے میں دو تین دن ہڑتال کے نام پر بندش شروع کردی۔تاکہ صارفین تنگ ہو کر کورٹ کا فیصلہ منسوخ کراسکیں۔محسوس تو یہ ہی ہورہا ہے کہ سی این جی کا ہوا کھڑا کرکے رینٹل پاور طرز کا کوئی معاہدہ ہو جائے گا۔پھر نئے پمپس کے لیے لائیسنس ملیں گے۔نئی گیس کو نیا نام دیا جائے گا۔اس کے لیے نئی کٹ اور سیلینڈر امپورٹ ہونگے۔نئی دکان ہو گی نیا سامان ہو گا۔صارفین بے چوں و چرا سر تسلیم خم کر دیں گے کیونکہ اتنی پریشانیوں کے بعد سکون محسوس کریں گے۔۔کہا جاتا ہے کہ موت کا خوف دکھاﺅ تو مریض بخار پر راضی ہو جاتا ہے۔یہ راستہ شوکت عزیز دکھا گیا کہ پہلے زیادہ گندم دکھائی اور سستے داموں ایکسپورٹ کردی۔پھر گندم کی قلت ہوئی تو مہنگی امپورٹ کی۔۔دروغ بر گردن راوی۔ سنا یہ یہی ہے کہ نہ گندم ایکسپورٹ ہوئی تھی نہ امپورٹ۔ صرف کاغذی کار روئی سے کروڑوں کا نقصان، حکومتی خزانے کو برداشت کرنا پڑا تھا۔۔کسی نے گندم نہ جاتے دیکھی نہ آتے۔۔واللہ ا علم۔ہمیں اس پر اس لیے یقین ہے کہ ہم جانتے ہیں ایک انجینیر نے لاکھو ںروپے ایک نہر کی کھدائی کے لیے وصول کیے۔اس کے مرنے کے بعد نئے انجینیر کو جب نہر نظر نہ آئی تو اس نے رپورٹ کی یہ نہر کسی کام کی نہیں اس لیے اسے بند کرنا بہتر ہے۔ اس نہر کی بھرائی کے لاکھوں روپے وصول کر لیے۔۔اب ہمت ہے تو آڈٹ کروالو۔نہر کی تو بھرائی ہوگئی۔اب اس کی پلاٹنگ کروا کر زمین بیچ کر حکومت چاہے تو خزانہ بھر لے۔چاہے تو ’بحریہ‘ کی بجائے ”نہریہ‘ ‘ٹاﺅن بنانے کے لیے کسی ادارے کو خیرات کر کے ثواب کمالے۔ قارئین ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ امریکہ LNG کے لیے راضی ہو گیا۔یہاں ہم یہ اعتراف کریں گے کہ ہمیں ایل این جی کا مطلب نہیں معلوم۔۔۔

ای پیپر دی نیشن