موت کبھی اطلاع دے کر نہیں آتی کہ اس کا ایک دن معین ہے جس میں کسی قسم کی رعایت ، سفارش یا رد و بدل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ’’ موت ‘‘ بڑا چھوٹا عہدہ… عمر، پوزیشن کسی کچے پکے گھر میں یا بڑی کوٹھی میں رہنے والے کاSTATUSہرگز نہیں دیکھتی اللہ تعالیٰ کی جانب سے موت صرف اور صرف وقت مقررہ کی پابند ہے جس میں رتی بھر رد و بدل ممکن نہیں…؟
علم و ادب سے وابستہ ایسی ہی دو بڑی شخصیات کو موت نے اگلے روز اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ اپنے مالک حقیقی سے ملنے کا انکا وقت طے ہو چکا تھا مصنف، ڈرامہ نگار، شاعر اور ممتاز کالم نویس منو بھائی 84برس کی عمر میں لاہور اور اردو کے ممتاز شاعر ساقی فاروقی 81برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئے منو بھائی کی طرح ساقی فاروقی کا سماجی، علمی صحافتی اور ادبی حلقوں میں ایک بڑا نام تھا انکی غزلوں کے متعدد ترجمے انگریزی اور جرمن زبانوں میں ہوئے۔منو بھائی شعرو سخن و علم و ادب کے چراغ تو تھے ہی مگر غریبوں اور پسماندہ طبقوں کے ایسے غم خوار کہ زندگی کی آخری سانسوں تک انکے حقوق کی جنگ لڑتے رہے، میری ان سے پہلی ملاقات کئی برس قبل استاد محترم سید ہمراز احسن کی وساطت سے ہوئی ہم دونوں لندن میں ایک اخبار سے منسلک تھے کہ لاہور جانے کا پروگرام بن گیا، جہاں سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد آصف نے ہمارے اعزاز میں ایک عشایئے کا اہتمام کیا جس میں منو بھائی اور مرحوم ارشاد حقانی صاحب نے خصوصی شرکت کی تب مجھے انکی شخصیت کے اندر چھپائے ہوئے کالم نویس کے انمول خزانے ڈھونڈنے کا موقع دستیاب ہوا۔ کالم لکھنے کا اسلوب ، اداب اور کالم کو سلانٹ دینے کے طریقہ سے آگہی مکمل کی وطن عزیز جب بھی جاتا بھر پور کوشش ہوتی کہ منو بھائی سے کوئی نئی کالمی تحقیق کے بارے میں آگہی حاصل کروں، استاد محترم ہمراز احسن اور فرح باجی کے بارے میں وہ مجھ سے خصوصی طور پر پوچھتے! ’’میرے ہمراز اور تمہارے استاد کی صحافتی سرگرمیاں اب کس نہج پر ہیں‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے امریکہ جب جاتے تو براستہ لندن کا انتخاب محض اس لئے کرتے کہ شاہ صاحب سے ملاقات کرتے جائیں۔
منو بھائی متعدد بار برطانیہ آئے یہاں برطانوی پاکستانیوں سے ملاقاتیں اور انکے مسائل کے موثر حل میں انکی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی شمال مشرقی لندن میں واقع پاکستان کمیونٹی سنٹر میں متعدد بار تشریف لائے انکے جچے تلے اور سادہ الفاظ میں کی گئی تقریر سے یہاں ہونے والی نئی نسل میں خوب محظوط ہوتی۔ لندن کے صحافی علمی ادبی اور سماجی فورموں پر انکی بھر پور پذیرائی کی اور کالم پر شعبہ صحافت میں آنے والے نوجوانوں کو انہوں نے لیکچر بھی دیئے۔
پاکستان کے مختلف سرکاری اور نیم سرکاری شعبوں کی کارکردگی کے حوالہ سے اعداد و شمار بیان کرنے میں انہیں خداداد صلاحیت حاصل تھی یہی وجہ تھی قومی معیشت پر لکھا انکا گریبان ملک کے ماہرین معاشیات بھی بڑے انہماک سے پڑھتے تھے۔ انکی فکر و نظر میں بلا کی وسعت تھی علم و ادب پر کئے ہوم ورک کو وہ اپنا ایمان تصور کرتے تھے۔ مزاج اس قدر دھیما کہ پہلی بار ملاقات کرنے والا انکا اسیر ہو جاتا تھا مگر آہ ! آج وہ ہم میں نہیں رہے۔
منو بھائی کی موت سے برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی نامور کالم نگار اور دکھی انسانیت کے لئے اپنے آپکو وقف کرنے والی اس عظیم شخصیت سے محروم ہو گئی ہے… ہمراز صاحب نے اپنا یہ غم مجھ سے شیئر کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا! آج میں اپنے ایک عربی استاد سے محروم ہو گیا ہوں وہ عظیم استاد جس نے مجھے علم و ادب شعر و سخن اور صحافت‘ رپورٹنگ کے عملی رموز سکھائے…؟ رپوٹنگ فیچر نگاری اور کالم نویسی میں میری تربیت کی …؟ لفظوں کا کھوج اور انہیں استعمال کرنے کے گر سے آشنا کیا…؟ منو بھائی کے ہمراہ گزارے آپکے طویل عرصہ کا کوئی ایسا یاد گار واقعہ جس میں انکی حس مزاح نے آپکو سب سے زیادہ متاثر کیا ہو؟ شاہ صاحب کو نارمل کرتے ہوئے میں نے اپنی خواہش کا اظہارکیا!
ایسے کئی واقعات ہیں مگر لندن کے حوالہ سے حس مزاح سے بھرپور ان کا یہ جملہ تا ہنوز بھلا نہیں پایا۔
منو بھائی پہلی مرتبہ جب لندن آئے تو ازراہ مذاق میں نے ان سے پوچھا کہ لندن دیکھنے کی انکی خواہش آخر پوری ہو ہی گئی انہوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے!
ہاں! خواہش تو’’ یہ بچپن ‘‘ سے تھی مگر پوری ’’پچپن‘‘ میں ہوئی ہے؟؟ انکا یہ خوبصورت اشارہ انکی عمر کی جانب تھا دوسرا واقعہ محبت انسان دوستی اور دوست نوازی کا ہے ان دنوں میری نئی نئی شادی ہوئی تھی منو بھائی شاگردوں اور دوستوں کو سیر و تفریح کیلئے شام کو اکثر اپنے ہمراہ لے جاتے ہم رکشے پر روانہ ہو گئے ریگل چوک پر پھولوں والا بیٹھا کرتا تھا منو بھائی نے رکشے والے کو وہاں رکنے کا اشارہ دیا اور پھول بیچنے والے کو نرگس کا گلدستہ تیار کرنے کو کہا! اس زمانے میں نرگس کا گلدستہ ’’خریدنا‘‘ ماڑے موٹے باذوق شخص کا کام نہ تھا جی چاہا کہ میں بھی یہ گلدستہ خریدوں مگر جیب اس وقت خالی تھی رکشہ روانہ ہو گیا، کرشن نگر میں جسے اب اسلام پورہ کہتے ہیں میری رہائش تھی رکشہ یہاں روکا اور نرگس کا وہ گلدستہ جو منو بھائی نے بظاہر تو اپنے لئے خریدا تھا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے شادی کی مبارک باد دی بڑی عظیم ہستی تھی وہ اپنے سے زیادہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کا خیال رکھتے تھے وہ مساوات کے چیف رپورٹر تھے اخبار میں خادم حسین تھے جبکہ میں اور سلیم شاہ مرحوم بطور جونیئر رپورٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے کسی نے ان سے ایک مرتبہ یہ پوچھا کہ سینئر اور جونیئر رپورٹر میں فرق کیا ہوتا ہے تو منو بھائی کا جواب تھا کہ کوئی سینئر اور جونیئر رپورٹر نہیں ہوتا، صحافت میں اچھا لکھنے اور سیکھنے والا ہی بڑا رپورٹر کہلواتا ہے… روزانہ کالم لکھنے کے بارے میں وہ اکثر کہا کرتے روزانہ کالم لکھنا قطعی آسان نہیں، اسکے لئے روزانہ گہرا مطالعہ پہلی شرط ہے مطالعہ ایسا ہو کہ کالم لکھنے کی راہ خود بخود ہموار دکھائی دے ۔