عام آدمی اور موجودہ سیاست

تیسری دنیا کے سبھی ملکوں کی یہ پرابلم ہے کہ ان ممالک میں سبھی ادارے مضبوط نہیں ہوتے چنانچہ انتظامی طور پر چونکہ 2 چار مضبوط ادارے حکومتیں چلاتے ہیں لہٰذا چھوٹے اداروں کو مضبوط اداروں کے نقشِ قدم پر ہی چلنا پڑتاہے۔ مضبوط اداروںکو حکومتوں کے ستون کادرجہ حاصل ہوتا ہے۔ مغرب اور یورپی ممالک نے دونوں بڑی جنگوں میں انسان کی اوقات کو بغور دیکھا اور اس کی اصل شکل کو سامنے رکھتے ہوئے اسکی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کیے۔ چنانچہ اداروں کی سطح پر انسان کو اس کے بنیادی حقوق دینے کا اہتمام ہے۔ اگرچہ اس میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔ مگر مجموعی طور پر سبھی ادارے عام لوگوں کو جواب دہ ہیں ا ور اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہ سہولت تیسری دنیا کے ممالک کو فی الحال حاصل نہیں اور وہ اس کیلئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مختلف نظاموں کے تجربے بھی ہوتے ہیں اور ان کا تقابل بھی مگر چونکہ انسان کو وہ اہمیت حاصل نہ ہے جو اس کے حقوق کا تحفظ کر سکے اس لیے نتائج زیادہ مثبت نہیں نکلتے۔ ہمارے ہاں صدارتی نظام کا تجربہ بھی کیا گیا اور جمہوریت کا بھی مگر افسوس کہ دونوں میں اصل قوت عام لوگوں کو حاصل نہ تھی۔ اس لیے صدارتی نظام ڈکٹیٹرانہ بنے اور جمہوریت نے وہی کردار مورثی حیثیت پا کے کیا۔ بعض دانشور اس کی وجہ ملک کے قیام کے وقت جاگیردارانہ نظام کی مضبوطی کو قرار دیتے ہیں کہ چند گھرانوں اور کنبوں نے حکومت کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا ایسا بندوبست کیا صدارتی یا جمہوری نظام اس کے تابع رہے اور دونوں نظاموں کو چلانے والی قوت بھی ایک ہی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں میں براجمان لوگوں کی زیادہ تعداد روایتی خاندانی نظام کی محافظ رہی اور اس میں تبدیلی کاتناسب کافی شرمناک رہا ۔جس نے ’’کرپشن ‘‘ جیسی بیماری کو جنم دیا اور صوابدیدی فنڈز کا تصور روزبروز ترقی یافتہ رہا اور تمام وسائل کو اپنے اختیار میں رکھنا اور استعمال کرنا ہی عوامی نمائندوں کی اولین ترجیح رہا۔ یہ ترجیح اگر کسی چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہوتی تو شاید اسکے اثرات قابلِ قبول ہوتے مگر یہ سارا کھیل ایک خاص سوچ اور فکر کے وقت تھا چنانچہ حاکمیت اور لوگوں پر حاکمیت ہی اس کا بنیادی نظریہ رہا جس نے عام لوگوں اورانکے نمائندوں کے اندر ہم آہنگی پیدا نہ ہونے دی اور لوگ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حکمران حکمران ہی ہوتا ہے اور صرف پانچ سال مخصوص مدت کے بعد لوگوں کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکے بعد اسے تلاش کرنا یا اسکی خدمات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عملاً ایسا ہی ہے اس لیے لوگ اتنے باشعور تو نہیں کہ ہیں تائید سے انکار کریں مگر پھر بھی صورتحال کو اچھی طرح سمجھتے اور ملکی سیاست کا موجودہ دور ایک الگ اور منفرد اس لیے ہے کہ حکمراں طبقے میں اب دراڑ سی نظر آ رہی ہے۔ حکمران طبقہ اپنے ہی حلیف یعنی حکمرانوںکو ہی تمام کرپشن اور بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ہوسِ اقتدار کو اسکی وجہ قرار دے رہا ہے۔ پر حقیقت یہ ہے کہ اس لڑائی میں بھی گھاس پھوس کا نقصان ہو رہا ہے اور مہنگائی اور افراطِ زر کے تمام اثرات عام آدمی کے حصے میں آ رہے ہیں اس لیے وہ اس روش سے نالاں ہے اور ایسا کرنے والوں کو بھی حکمراں ہی قرار دیکر ان کی نااہی پر مہر ثبت کر رہا ہے۔ اس میں سارا زور اس بات پر ہے کہ ماضی میں کون کون لوگ مختلف نظاموں کے تحت حکومتوں میں رہے اور کون کون پہلی بار حکمران کے منصب پر فائز ہوا۔ جو لوگ پہلے اس دوڑ میں شامل نہیں تھے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور جائز وارث قرار دے رہے ہیں ا ور اگر انہیں وقت ملے تو صورتحال کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ روایتی ادارے اس ساری صورتحال کو بغور مانیٹر کر رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بہت جلد وہ کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔ مگر ان سے التماس صرف اتنی ہے کہ کسی بھی فیصلے پر پہنچ جانے کیلئے اپنے ذہن میں عام آدمی کو ضرور رکھیں کہ اب عالمی میڈیا میں روز صورتحال واضح کرنے کی روش چل پڑی ہے اور عالمی سطح کے نت نئے سکینڈل دیکھنے والے عام آدمی کو اندھیرے میں رکھنا ذرا مشکل ہے۔اس کیلئے یہ سوال اہم ہے کہ جب اقتدار کو چلانے والے ادارے ایک سے زائد ہیں تو پھر اچانک کسی ایک ادارے کو نظام درست کرنے کی ذمہ داری کیسے مل جاتی ہے اور بنیادی ادارے اپنا وجود رکھتے ہوئے بھی اپنے کردار سے وہ کیسے دست کش ہو جاتے ہیں۔اسی طرح یہ سوال بھی اگرچہ سست رفتاری سے ہی سہی اپنی جگہ بنا رہا ہے کہ انسانی حقوق صورتحال مختلف حلقوں میں مختلف کیوں ہے؟ اس سے قبل کہ ایسے سوالات اجماع امت ہو انکے جوابات کے بارے میں متعلقہ اداروں کو اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہئے۔ کیوں کہ…؎
لوگ اس وقت کو آشوب جہاں کہتے ہیں
سراٹھا دیتے ہیں جب ناز اٹھانے والے ناز اٹھا اور سر اٹھانا دو مختلف روئیے ہیں اوردونوں کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ تاریخ اسکی گواہی موجودہ وزیراعظم عمران خان اگرچہ سابقہ ادوار میں حصہ دارنہیں رہے اور اپنے آپ کو ابھی تک فرق ڈالنے والی حیثیت کا حامل سمجھتے ہیں مگر موجودہ دور میں بھی حکمرانی کے روایتی پروٹو کول سے دستکش ہونا ان کیلئے ممکن نہیں۔ صرف ٹویٹ کرنا جدت نہیں یہ آجکل امریکی صدر روزانہ کرتا ہے۔ اور دن میں کئی بار کرتا ہے۔ صرف گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے یا اہم سرکاری عمارات کی حیثیت تبدیل کرنا بھی لوگوں کا مسئلہ نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ ان کی نمائندگی اور مہنگائی سے انکی جان چھڑا کر یگانگت کرنا ہے وہ جتنی جلدی اس مسئلے پر پیش رفت کرینگے۔ اتنی جلدی عوام کے دلوں میں جگہ بنائیں گے اور تادیر اپنی جگہ قائم بھی رکھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن