بچوں کی حوالگی، طلاقیں بڑھنے سے گارڈین کورٹس میں مقدمات میں اضافہ

لاہور ( شہزادہ خالد) بچوں کی حوالگی، ملاقاتوں کے حوالے سے گارڈین کورٹس میں زیر سماعت مقدمات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گھریلو جھگڑوں کے باعث میاں بیوی کے درمیان علیحدگی سے بچے شدید ذہنی تنائو کا شکار ہو کر جرائم کی دنیا کا رخ کر رہے ہیں۔ نوائے وقت سروے کے مطابق لاہور سمیت ملک بھر میں طلاق کی شرح میں اضافہ سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ طلاق کے باعث متاثرہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما خطرناک حد تک بگڑ رہی ہے۔ بچوں کے حوالے سے مقدمات میں اضافے سے گارڈین کورٹس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ان عدالتوں کی تعداد میں مقدمات کے تناسب سے اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ کئی برسوں تک چلنے والی مقدمہ بازی سے بچوں اور والدین کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ صرف لاہور میں بچوں کا خرچہ ادا نہ کرنے پر 300 سے زائد والد جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ عدالت والد یا والدہ جس فریق کے حوالے بچہ کر دیتی ہے وہ فریق کیس کو طویل کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسرا فریق کیس کے جلد حل نہ ہونے پر ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ بڑی تعداد میں متاثرہ سائلوں نے گارڈین ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔فوزیہ عطاریہ نامی خاتون نے بتایا کہ انکا کیس فیملی کورٹ میں زیر سماعت ہے دو بیٹیاں اسکے پاس ہیں جبکہ دو بیٹے اسکے شوہر کے پاس ہیں۔ اسکا شوہر نعیم جان بوجھ کر قدمہ کو طول دے رہا ہے۔ عدالت سے تاریخ پر تاریخ ملنے سے وہ ذہنی مریضہ بن گئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی گارڈین کورٹس میں ہر ہفتے بچوں کی ان کے نان کسٹوڈین والدین سے ملاقات کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کی حوالگی کے مقدمات میں زیادہ تر بچوں کے والد کو ان کے فطری حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔90 فیصد سے زائد مقدمات میں بچے اپنی ماں کے پاس ہونے کی وجہ سے والد کو ہر ماہ صرف دو گھنٹے کی ملاقات کے لئے ہزاروں روپے بطور خرچہ و دیگر لوازمات برداشت کرنے پڑتے ہیں جبکہ بچے کے والد ہونے کے ناطے صرف دو گھنٹے ملاقات والد کو اس کے قدرتی حق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بچے کے بھی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہے۔ والدین کے درمیان علیحدگی سے بچوں کو نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے چائلڈ کسٹڈی لاء سوسائٹی کے نمائندہ فہد صدیقی ایڈووکیٹ ، سابق جسٹس فیصل نصیرنے کہا کہ نابالغ بچے کا والدہ کی تحویل میں 7سال تک رہنے اور بچے کی اس کے والد سے ملاقات کا معینہ ٹائم اور وقت کا حکم قانون میں کہیں بھی موجود نہیں تاہم عدالتیں عمومی طور پر والد کو مہینے میں ایک بار صرف دو گھنٹے ملاقات کا وقت دیتی ہیں جو عدالت سے متصل ملاقاتی کمرے میں کرائی جاتی ہیں۔ مہینے کے 720 گھنٹوں میں صرف 2 گھنٹے ملاقات کا حق دینا صریحاً نا انصافی ہے جس کے لئے موجودہ قوانین میں ترامیم وقت کی اشد ضرورت ہے۔ رواں برس تقریباً 15 ہزار خلع کے مقدمات درج کئے گئے جس میں زیادہ تر بچوں کے والد ملاقات کرنے کے لئے مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بچوں کو ان کے والد کے گھروں میں لے جا کر ان سے ملاقات کرنے اور عید، بقرہ عید، عاشورہ اور سالگروں کے مواقع سمیت ماہانہ ملاقات کا سالانہ شیڈول جاری کیا جائے جس سے بچوں کوان کے حقیقی نان کسٹوڈین والدین سے ملنے اور ان کی محبت سے سیر ہونے کا موقع مل سکے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...