آخر کب تک!

پہلے ننھی زینب اور اب حوض نور۔ یہ سوال یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے کہ آخر جن بچیوں کے ابھی کھیلنے کے دن تھے جنہوں نے زندگی میں آگے بڑھنا تھا اور جن کے ماں باپ کے ارمان ابھی پورے بھی نہ ہو پائے تھے کہ ان بچوں کو ظلم اور درندگی کا نشانہ بنا کر کسی گلی کے نکڑ پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے ان بچوں کے ماں باپ کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔ ان کے دکھ کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی باقی زندگی انصاف کی امید پر یا اپنی موت کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس بات پر پردہ ڈالنے کی بجائے اس کے تدارک کا سوچا جائے۔ یہ مرض کینسر کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ہے اور ہر کوئی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اگر اس کا فوری علاج نہ کیا گیا تو ہماری نسلوں کو نگل جائے گا۔ آخر کب تک ہم بے بس ہو کر یہ ظلم ہوتے دیکھتے رہیں گے۔
ہر سال ان بچوں کی شرح فیصد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ آگ صرف پنجاب تک محدود تھی لیکن اب خیبر پختونحوا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ دیکھا جائے تو اب تک پنجاب میں 600 بچے اس درندگی کا شکار ہوئے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر مجرم وہ تھے جو ان بچوں کے جاننے والے تھے جن پہ وہ بچے بھروسہ کرتے تھے۔ یہ معاملہ صرف لڑکیوں تک محدود نہیں۔ قصور میں ان نابالغ لڑکوں کو جس طرح جنسی حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی میں بِل پر بِل پاس ہوتے ہیں لیکن ان بِلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ کون ہے جو اس قانون کو بنائے اور پایۂ تکمیل تک پہنچائے؟ حکومتی لوگ سرسری کارروائی سے آگے کچھ نہیں کر پاتے۔ جس کی بنا پر یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور آئے دن ایک نیا واقعہ سننے کو ملتا ہے۔ ان واقعات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی یہ ملزم پکڑے جاتے ہیں ان کو پولیس کے ریمانڈ میں دے کر یا سزا دے کر معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ ان درندوں کو عبرت کا نشان بنانا تو دور کی بات ان کی لاش کا نشان بھی نہیں ملتا۔ یہ واقعات زیادہ تر ان حالات میں ہوتے ہیں جب والدین اپنے بچوں کو اکیلا سکول، مدرسے یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے باہر بھیجتے ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ اب خود اس کے لیے کچھ کریں۔ سب سے پہلے گھر میں بچوں کی تربیت کی جائے انہیں آگاہی دی جائے کہ کسی بھی انجان یا جان پہچان والے کے ساتھ بغیر والدین کی اجازت کے نہ جائیں۔ سکول، مدرسہ بچوں کو تنہا بھیجنے کی بجائے خدا را ان کے ساتھ جائیے۔ ان کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم کسی طور بھی اس سے غفلت نہیں کر سکتے۔ بچوں سے اس معاملے پر بات کرنے سے مت ہچکچائیں اور آہستہ آہستہ ان کے ذہن میں اس بات کو بٹھا دیں کہ کوئی کسی چیز کا لالچ دے کر بلائے اس کے پاس ہرگز نہ جائیں۔ میں نے اکثر گائوں، دیہات میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے آسرا گلیوں میں کھیلتے کودتے دیکھا ہے۔ میری ریاست کے ذمہ دار میڈیا سے درخواست ہے کہ ایسے گائوں اور قصبوں میں ہر ٹی وی چینل پر ایک اشتہار چلائیں جس میں والدین کو آگاہی دی جائے کہ وہ کسی قسم کی غفلت نہ برتیں۔ اپنے بچوں کی ذمہ داری نبھائیں۔ اس سلسلے میں تعلیمی ادارے بھی اپنا فرض پورا کریں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ کیوں نہ سکولوں میں اساتذہ جہاں بچوں کو باقی تعلیم دیتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ اپنے تحفظ کی تعلیم بھی دیں۔ جگہ جگہ چھوٹے بڑے شہروں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد سے آگاہی کے پوسٹرز لگائے جائیں۔
ہر دن یہ سوچ کر شروع کرتی ہوں کہ جانے آج ان کانوں کو کیا سننے کو ملے گا۔ روزانہ کے ان حادثات نے دل دہلا دیا ہے اور خیال صرف ان ماں باپ کی طرف جاتا ہے جن کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا جو جیتے جی اپنی اولاد کے دکھ میں مر جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اولاد کا دکھ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا پاکستان دینے جا رہے ہیں جہاں وہ غیر محفوظ اور غیر مستحکم ہیں۔ آئیے۔ مل جل کر اس مرض پر قابو پائیں اور اس پیغام کو ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیں تاکہ ہمارا آج اور کل دونوں اس مرض سے نجات پا سکیں۔

ای پیپر دی نیشن