اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے وزیر ریلوے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے پلان طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر شیخ رشید نے اپنے دیے گئے پلان پر عمل نہ کیا تو توہین عدالت اور فوجداری کاروائی ہوگی۔ عدالت نے ایم ایل ون کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی ویزر پلاننگ اور سیکریٹری پلاننگ کو بھی آئیندہ سماعت پر طلب کر لیا چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کو آگ لگنے کے واقع کے بعد شیخ رشید کو استعفی دے دینا چا ہیے تھا سماعت آغاز پر ریلوے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر وزیر ریلوے عدالت میں پیش ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے آپ کا سارا کٹھا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے، میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کردیں۔ جیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت نہیں۔ 70لوگ جل گئے بتائیں کیا کاروائی کی گئی۔ شیخ رشید نے کہا19 لوگوں کے خلاف کاروائی کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا گیٹ کیپر، ڈرائیوز کو نکالا بڑوں لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی ؟ کیا کسی سی ای او کو نکالا گیا۔ شیخ رشید نے کہا سی ای او تو ابھی نئے آئے ہیں لیکن معاملے میں آپکی ہدایت پر بڑوں کے خلاف بھی کاروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا پھر شیخ صاحب سب سے بڑے تو آپ خود ہیں بتا دیں۔70 آ دمیوں کے مرنے کا حساب آ پ سے کیوں نہ لیا جائے۔ ریلوے جلنے کے واقعہ کے بعد تو آپکو استعفی دے دینا چاہیے تھا۔ شیخ رشید نے کہا ایم ایل ون چودہ سال پرانا منصوبہ ہے عمل نہیں ہوا۔ ہمارے پرانے دور میں اس پر کام شروع ہوا تھا لیکن آگے نہیں بڑھا۔ چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک اور نہ بوگیاں ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ ریلوے افسر جس کو چاہتے ہیں زمین دیتے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا ہم آپکے سامنے رونا نا روئیں تو کس کے سامنے روئیں؟میرے دور میں زمین نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے کہا کراچی میںحیات ایجنسی ہوٹل کو آپ نے دیا ہے شیخ رشید نے کہا عدالت مہلت دے معیار پر پورا نہ اترا تو استعفی دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا سرکلر ٹرین کا کیا بنا ۔ سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پر خالی ہوئی، کالا پل دیکھیں، کیماڑی جائیں دیکھیں کیا حال ہے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن ریلوے جا کدھر رہی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ریلوے ایم ایل کی فنانس کہاں سے لائے گی اربوں کا خسارہ ہر سال ہو رہا ہے۔ شیخ رشید نے کہا5 سال میں ریلوے کا خسارہ ختم ہو جائے گا۔ حکومت پنشن لے لے توخسارہ آ ج ہی ختم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا انڈیا، چائینہ، جاپان کے ٹریک دیکھیں مجھے نہیں معلوم ایم ایل ون کونسا جادو گری ہے۔ سپریم کورٹ میں ریلوے ملازمین کے تین تین سو کے مقدمات آتے ہیں ریلوے کا ہر افسر پیسے لے کر بھرتی کررہا ہے۔ شیخ صاحب سینئر وزیر کے طور پر آپکی کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہیے تھی لوگ اپکی باتیں سنتے ہیں لیکن آپکا ادارہ سب سے نااہل ہے۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا پام کلب میں بھی عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوا نہ ماہرین کی خدمات لی گئیں، کارکردگی کا فقدان ہے۔ ٹرینیں کبھی وقت پر نہیں آتیں کبھی آدھے راستے میں انجن خراب ہو جاتے ہیں پاکستانی لوگ باہر جا کر ٹرینیں چلا رہے ہیں۔ ریلوے کے بابو صرف سیٹیں گرم کر رہے ہیں۔ ان بابو سے ریلوے نہیں چلے گی۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ریلوے دو ہفتوں کے اندر سرکلر ریلوے چلانے اور سلسلے میں چھ کلومیٹر کے ٹریک پر تجاوزات خالی کروانے کیلئے سندھ حکومت تعاون کرے اور سرکلر ریلوے چلانے کیلئے اٹھائے جانے والے لوگوں کی بحالی کیلئے اقدامات بھی کئے جائیں اور آئیند سماعت وفاقی وزیر پلاننگ اور سیکریٹری بھی عدالت میں ایم ایل ون کی منظوری کے حوالے سے پیش ہوں کیس کی مزید سماعت بار ہ فروری کو ہو گی۔ بعد ازاں شیخ رشیدکا میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ریلوے چیف جسٹس ہدایات پر عمل کر کے آ گے بڑھے گی زیادہ بات کروں تو کہتے ہیں سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں۔ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ 2013 سے 2017 کی ہے چیف جسٹس اگر کہیں تو میں ابھی استعفی دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریلوے سے قومی محبت اور لوگوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے ہدایات دی ہیں۔ ایم ایل ون کے بارے میں چیف جسٹس نے جو ہدایات دی ہیں وہ اس بات کی عکاس ہے کہ پوری قوم کی دلچسپی اس میں ہے قوم کے لیے جو درد اور سوچ عدلیہ رکھتی ہے اس کے لیے ان کے مشکور ہیں۔ ریلوے میں مختلف جگہوں پر جو اسٹے ہیں وہ ابھی ختم ہوں گے آپ حکومت گرانے کی باتیں کریں گے تو میں اس کا جواب تو دوں گا۔ عثمان بزدار تب تک رہیں گے جب تک وزیراعظم رہیں گے۔