حکومت کے کرنے والا اہم کام

Jan 29, 2021

منیر احمد خان

یہ ایک خوفناک سچائی ہے جس طرح بڑھتا ہوا بلڈ پریشراپنا احساس دلائے بغیر انسانی جسم کو مفلوج یا ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی طرح بڑھتی ہوئی آبادی غیر محسوس انداز میں ریاست کو چلانے والی ہر مشینری کے نظام کو دھڑام سے گرانے یا جام کرنے کی باقائدہ کیمسٹری رکھتی ہے حکومت ریاست کی سلامتی کے لیے کرنے و الے کئی انتہایی اہم کاموںکو نظر انداز کرگئی جو لازم و ملزوم تھے کسی سماج کی ترقی کے لیے کوئی بھی حکومت اپنے دور میں تمام معاشرتی بگاڑ تو ختم نہیں کر پاتی لیکن یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی پالیسی سے آنے والی نسلوں کی تعمیر و خوشحالی کا فریضہ ادا کرے۔جس ٹائم فریم میں حکومت گذررہی ہے اس میں ہمیںخوفناک انداز سے بڑھتی آبادی کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقتوں میںاس پر موثر انداز میںکام ہو سکے اس ضمن میںپہلے ہی بہت وقت ضائع  ہو چکا ہے یہ ایک انتہائی ضروری ریاستی مسئلہ ہے جس نے غربت کو بھی فروغ دے رکھا ہے۔ غربت پاکستانی معاشرے کا ایک المیہ ہے۔ غربت جہاں انسانی اخلاق اور جوہر کو مجروح کر کے رکھ دیتی ہے وہاں سماجی بگاڑ کی ایک اہم ترین وجہ بھی یہ ہی  ہوتی ہے پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کا تحقیقی فکرونظر سے تجزیہ کریںتو غربت کے ماخذمیں آبادی کا بے بہا انداز میں بڑھنا وا ضح نظرآئے گا پاکستان میںاب تک کی عمیق تحقیق کے مطابق دو چیزیں سنگین اندازمیں بڑھ رہی ہیں بلکہ حد کو تجاوز کر گئی ہیں اول آبادی دوئم اندرونی وبیرونی قرضہ مبینہ طور پر ہر پاکستانی 1,81000روپے کامقروض ہے جو میری سمجھ سے بالا تر ہے اس کو میں مصدقہ نہیں سمجھتا کیونکہ جس ملک میں بیس بیس سال کے بعد مردم شماری ہوتی ہو اور مردم شماری میں ان عوامل سانٹیفک بنیادوں کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے جو آبادی کے کو جانچنے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں تو وہاں کیسے وثوئق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر شخص ایک لاکھ اکیاسی ہزار کا مقروض ہے اگر درست مردم شماری ہو تو ہر پاکستانی سے قرضے کی ریشو کم ہوجائے گی کیونکہ آبادی یقینی طور پر زیادہ نکلے گی۔ ہماری نا اہلی اس زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ابھی تک  پرفیکٹ مردم شماری نہ کرا سکے ۔  ملکی ترقی کی اولین شرط یہ ہوتی ہے کہ جو عمل ،کیفیت یا اقدام ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے اس کے لیے حکومت اور اس کا ہر ادارہ  اپنے طے شدہ فرائض منصبی اسی انداز سے ادا کرے جس سے ریاست کے بقا کی راہیںاستوار ہوں۔ قرضے کی بہتات کی اہم وجہ آبادی کی کثرت بھی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ عالمی مالیاتی اداروں کامقرو ض ہے لیکن یہاں اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی گھمبیر کیفیت میں پاکستان کہاں کھڑا ہے کیا ہماری معاشی،سماجی،اور سیاسی کیفیت اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ ہم آبادی کو بڑھاوا دیں یہ تو سیدھا سا فارمولا ہے کہ آمدنی کم ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں‘ وہاں غربت تو بھنگڑے ڈالے گی پاکستان میں ابھی تک آباد ی پر قابو پانے کا کوئی فارمولا تیار نہیں ہوا  اور نہ اس طرف توجہ ہے کیونکہ یہاں لیڈر نہیں عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنٹ  اپنی اپنی تنخواہوں پہ کام کر رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ کے اندرونی سطع کے علاوہ پاکستان آئی ایم ایف او ردیگر عالمی مالیاتی اداروں کا چھتیس ہزار ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ اس سے قرضے دینے والوں کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔اس کا سیاہ پہلو یہ ہے کہ اگر ہم اپنی سماجی کیفیت کے تناظر میں آبادی بڑھنے کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہاں صرف آبادی ہی نہیں بڑھتی بلکہ یہاں صوبائیت ، فرقہ واریت،مختلف اقسام کی عصبیت، علیحد گی پسندی بے  روز گاری ،ناخواندگی ،پسماندگی ،انتہا پسندی ،ماحولیاتی آلودگی ،ٹریفک کااژدھام،دہشتگردی اور دیگر جرائم  وغیرہ بھی بڑھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کااخلاقی اور معاشی دیولیہ نکلتا جارہاہے۔ ہر شعبہ زندگی نت نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان چین، بھارت،امریکہ اور انڈونیشا کو چھوڑ کرپا نچواں بڑی آبادی والا بڑاملک ہے۔ اگر یہ ہی حال رہا تو کم از کم اسلامی دنیا میں آبادی کے حوالے سے پاکستان سب سے بڑا ملک بن جائے گاکیونکہ انڈونیشا مزید آبادی کا  بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں رہا۔یہ بات ہمارے اکابرین کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ بنگلہ دیش اور ایران نے اپنی خوشحالی کی خاطر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پا کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا ہے یہاں کونسی افتاد آن پڑی ہے کہ اتنے گھمبیر مسئلے کی طر ف سنجید ہ نہیں ہواجا رہا ہے۔
 آبادی کی کثرت سے جوعوامل پیدا ہوتے ہیں ان سے انسانی حرمت اور احترام ختم ہوتاجارہا ہے۔ وہ معاملات  جن سے ہم دوچار ہیں آنے والی نسلوں کو ان سے ہزیمت وخواری سے بچانا ہے۔ پاکستان ا نسانی حقوق کی بازیابی کے سلسلے میں 188ممالک میں سے  159 نمبر پر ہے۔ ملک کی ترقی فرد کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے۔ ا س کے لیے ہمیں اپنے وسائل کو بڑھانا پڑے گا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کروڑوں افرادجو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں ان کی اولادں کو پیدا ہونے کے بعدجو ماحول میسر آئے گا۔کیااس میں ہر نوع کی معاشی،معاشرتی، ،سیاسی اورسماجی پستی نہیں ہوگی۔ پھرکیا ان کی غذا ان کی تعلیم انکی صحت کے مسئلے پیدا نہیںہونگے ان کاحل کون کرے گا۔اس کا مطلب وہ بچے معاشرے کے ظالمانہ تھپیڑوںکے رحم و کرم پر پلیں گے۔ افلاس اور اخلاقی پستی  ان کا مقدر بن جائے گی۔ وہ معاشرے میں کبھی بھی وہ رزلٹ نہیں دے سکیں گے جو مہذب معاشرے کے لیے ناگزیزہوتا ہے ریاست کا سرمایہ عوام ہوتے ہیں۔ عوام کا شعوری معیار معاشرے کی سر بلندی کا تعین کرتا ہے۔ حکومت کو ملکی سلامتی اورقوم کی بقاء کے ضمن میں وہ اجزا تر کیبی بروئے کار لانے ہونگے جو آبادی کو کنٹرول کرنے میں کارگر ثابت ہوں۔
 ٭…٭…٭

مزیدخبریں