انڈیا کے کسانوں کا احتجاج شدت اختیار کرتا جارہا ہے جس کی واضح مثال انڈیا کے 72ویںیوم جمہوریہ کے موقع پر26جنوری202کو دیکھنے میںآئی جب انڈیا کے کسان تمام رکاوٹوں کو توڑتے اور شدید آنسو گیس کی شیلنگ کو برداشت کرتے ہوئے لال قلعہ میں داخل ہوگئے اور لال قلعہ کی فصیل پر خالصتان کا پرچم لہرادیا۔ انڈیا کے دار الحکومت دہلی میں جاری احتجاج 32سال تاریخ میں شدید ترین تصور کیا جارہا ہے ۔ طویل عرصے سے انڈیا کے کسانوں نے دہلی کو اپنا مخالف گڑھ بنایا ہوا ہے اس کی بنیاد ی وجہ مودی سرکار کا غیر جمہوری اور تشدد پسند انہ رویہ ہے۔ مودی سرکار جب سے واضح اکثریت سے دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے تب سے اپنا سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے ۔ روز بروز نت نئے قوانین کو متعارف کروایا جاتا ہے اور جس کی مخالفت میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔انڈین حکومت نے تین قوانین متعارف کروائے ہیں جن کی وجہ سے انڈیا کے کسان مودی سرکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ۔کسان رہنماؤں نے واضح اعلان کیا تھا کہ26جنوری 2021کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر لاکھوں کسان دہلی میں واقع لال قلعہ کی جانب ٹریکٹروں کیساتھ مارچ کریں گے اور انہوں نے تمام رکاؤٹوں کو توڑتے ہوئے لال قلعہ کی جانب مارچ جاری رکھا ۔ انڈین کسان مودی سرکار کو کسان دشمن قرار دے رہے ہیں ۔ جن قوانین کو مودی سرکار نے لو گ سبھا سے منظور کروایا ہے ان قوانین کے نفاذ سے کسانوں کو خدشہ ہے کہ پیداوار پر مودی سرکار کا بے جا کنٹرول ہوجائے گا۔ پہلا قانون دی فارمرز پر وڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیلیسٹیشن ) 2020کے مطابق کسان ایگری کلچر پروڈیوسر کمیٹی کے ذریعے مطلع شدہ منڈیوں کے باہر اپنی پیدا وار دوسری ریاستوں کو ٹیکس ادا کیے بغیر فروخت کرسکتے ہیں ۔ اس قانون کو انڈین کسان ناانصافی قرار دیتے ہیں جس کی وجہ کسان ایگری کلچر پروڈیوسر کمیٹی کا براہ راست فروخت میں عمل و دخل ہے ۔ اس کمیٹی کے ارکان کا تقرر حکومت کرے گی اور کسانوں کو کمیٹی کے اراکین کی رائے پر انحصار کرنا پڑے گاتاکہ مطلع شدہ منڈیوں کے باہر اپنی پیدا وار فروخت کرسکیں ۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو کافی وقت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسرا قانون ہے فارمرز اگریمنٹ آن پرائز انشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ 2020( ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن ) ۔جس کے مطابق کسان کنٹریکٹ فارمنگ یعنی معاہدہ کا شتکاری کرسکتے ہیں اور براہ راست اس کی مارکیٹ بھی کرسکتے ہیں ۔ انڈین کے کسان اس قانون کو کسان دشمن قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جب کسان پیدا وار کا معاہدہ قبل ازاں کسی کمپنی یا خریدار سے طے کرلیتا ہے تو اس کی قیمت آدھی سے بھی کم طے کی جاتی ہے جس سے کسان کا استحصال ہوتا ہے اور اس کو پیدا وار کا معاوضہ مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کے مطابق نہیں مل سکے گا۔ دوسری جانب حکومت کی مقرر کردہ قیمت کا بھی اس قانون کی روشنی میں اطلاق نہ ہوسکے گا۔ تیسرا قانون ہے اسیسنشیل کموڈیٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ2020۔ اس میں پیدا وار۔ ذخیرہ کرنا، اناج ، دال ، کھانے کے تیل او پیاز کا غیر معمولی حالات میں فروخت کے علاوہ کنٹرول سے باہر کر دیا گیا ہے ۔ انڈین کسان اس قانون کو مودی سرکار کا ان کی فصلوں پر کنٹرول کرنے کا ڈھونگ قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ انڈین کسان پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے اور بڑی مشکل سے فصلوں کو فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ مستقبل میں کاشت کرنے والی فصل کے اخراجات کو اکٹھا کرتا ہے ۔ اس قانون کی موجودگی میں جب انڈین سرکار ان کی فصلوں پر کنٹرول حاصل کرے گی تو کسان شدید بد حالی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ جب فصل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ لاگت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مجموعی طور پر اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، ان کی قیمت، ان کی قیمت کا تعین اور ان کے ذخیرہ کرنے کے متعلق طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہیں جو انڈیا میں طویل عرصے سے رائج ہیں اور جس کا مقصد کسانوں کو آزاد منڈیوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ ان قوانین کے نفاذ کی صورت میں انڈیا کا کسان آزاد منڈیوں کا مرہون منت ہوجائے گا اور اس صورت میں نقصان کا اندیشہ رہے گا جو کہ اس کے مستقبل کو شدید متاثر کرے گا۔ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019کے جنرل الیکشن میں کامیابی کے بعد دوبارہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انڈیا کے زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ۔ مزید برآں سٹیزن امنڈمنٹ ایکٹ (Citizen Amendment Act) کا اطلاق کردیا جس کی وجہ سے کوئی بھی انڈیا کا شہری جموں و کشمیر میں سکونت اختیار کرسکتا ہے اور جائیداد کی خریدار وفروخت کرسکتا ہے جس کی وجہ سے انڈیا کے زیر تسلط جموں و کشمیر بلکہ تمام ملک میں شدید مظاہرے ہوئے ۔ انڈیا کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کو 1947سے خصوصی حیثیت حاصل تھی جو کہ مودی سرکار نے ختم کر دی ۔ حکومت کا مقصد عوام کے لیے سہولیات کو فراہم کرنا ہوتا ہے اور سہولیات کو فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوتے ہیں جبکہ انڈین حکومت اپنے جابرانہ رویہ کی وجہ سے دنیا بھر میں تنقید کی زد میں ہے۔ انڈین کسان مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انڈین کسان بیرون ملک میں بھی مودی سرکار کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں ۔ خیال کیا جارہا تھا کہ کسانوں کا احتجاج چند ہفتے جاری رہے گا آخر کار ختم ہوجائے گا مگر کسانوں کا احتجاج دوماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کسانوں کے خلاف مودی سرکار کے بنائے ہوئے تینوں قوانین کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے مگر انڈیا کے کسان مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے گھر واپس جائیں گے جب مودی سرکار تینوں قوانین کو ختم کردے گی۔ دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ جس کی بنیاد ی وجہ ممالک کے درمیان تجارتی لین دین میں اضافہ ہے ۔ جب تک کسی ملک کے عوام کو اپنی حکومت پر اعتماد نہیں ہوگا تب تک کوئی بھی ملک دور جدید میں ترقی نہیں کرسکتا ۔ انڈیا کی موجودہ حکومت کو سوچ میں تبدیلی لانا پڑے گی تاکہ عوام کے لیے سہولیات کا سبب بن سکے۔ بلا وجہ اور بے مقصد مذاکرات وقت کا ضیاع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حالات میں شدت پیدا ہو جاتی ہے ۔ دنیا سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک دوسرے سے منسلک ہوچکی ہے۔ ایک وقت تھا جب انڈین جمہوریت کا دنیا میں خوب چرچا تھا اور اب دنیا میں مودی سرکار کی پالیسیوں کو تنقید کا سامنا ہے ۔ انڈین عوام بھی مودی سرکار کی جابرانہ پالیسیوں سے سخت پریشان ہیں ۔ انڈیاکے کسانوں کا جاری احتجاج اس کی واضح مثال ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین کو انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے تاکہ قوانین کا اطلاق کرتے وقت مشکلات سے بچا جاسکے۔ اگر مودی سرکار بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسنے والے عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے اور انڈین کسان بھی اپنے گھروں کو لوٹ کر فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں گے ۔
وجیہہ الدین خان پاک ترک لائر فورم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور انٹر نیشنل لاء میں ایل ایل ایم کی ڈگری رکھتے ہیں ۔