چور مچائے شور

جس طرح آثار قدیمہ کو دیکھ کر ماہر آثار قدیمہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کس زمانے میں ان کھنڈرات میں کونسی نسل انسانی آباد تھی۔ یہ کہ دریافت شدہ کھنڈر کی جگہ کونسی عمارت تھی؟ ٹھیک اسی طرح یہ اندازہ بھی لگا لیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں یا کسی خطہ زمین میں جو کچھ خلاف معمول ہو رہا ہے یہ کس کس کی پلاننگ و منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ وہ خلاف معمول عمل یا حرکت کسی کے خلاف ہو رہی ہو تو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس عمل یا حرکت کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ لازمی بات ہے یہ فائدہ اسی کا ہوتا ہے جو نقصان والے فریق کا دشمن ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا کوئی دوست، اپنے دوست کا کوئی نقصان اس لیے کر جاتا ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ دوست اس پر شک نہیں کر یگا۔ اپنے دوست پر شک کریگا اور جواباََ اسے بھی نقصان پہنچائے گا۔ جو اپنے دوست کو نقصان پہنچانے والے کا دشمن ہوتا ہے یعنی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن کو نقصان پہنچانے کیلئے دوست کو قربان کر جاتے ہیں، اسی کو کہتے ہیں کہ دوسرے کی بھینس مارنے کیلئے اپنا کٹا مارنا پڑے تو مار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پر ہائبریڈ وار مسلط ہے اس لیے مسلط ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔ دشمن پاکستانیوں کے سامنے اس لیے بے نقاب ہو چکے ہیں کہ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جن کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے اور دشمن کا فائدہ ہو رہا ہے کسی شک و شبہ کے بغیر وہ لوگ ہائبریڈ وار میں دشمن کے ہتھیار ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں جو ہو رہا ہے کرنیوالے سامنے ہیں تو وہ بھی بے نقاب ہو رہے ہیں جو یہ سب کروانے والے ہیں ۔یعنی ہوتی ہوئی ہائبریڈ وار کے ہتھیار واضح ہیں تو بینا فشری جنہیں فائدہ پہنچ رہا ہے وہ خود بخود واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نقصان والی حرکتیں، حرکتیں کرنیوالے، حرکتیں کروانے والے واضح ہیں تو ان ظاہری لوگوں کا مقصد کیا ہے؟ ان حرکتوں کے پیچھے پلاننگ و حکمت عملی کیا ہے ؟ وہ خود بخود واضح ہو رہی ہے۔جب حرکتیں، حرکتیں کرنیوالے، حرکتیں کروانے والے اور انکے مقاصد واضح ہیں تو اللہ 
کے  کرم  سے ان حرکتوں و سازشوں کا توڑ بھی ہو رہا ہے اور وہ توڑ کر رہی ہیں ’’پاکستان کی فوجـ‘‘ جی پاکستانی بھائیو، وہ توڑ فوج کر رہی ہے، توڑ ہو رہا ہے تو ہائبریڈ وار ناکام ہو رہی ہے۔ اس لیے دشمنوں کی  ہائبریڈ وار کے تمام ہتھیار کھل کر فوج پر برس رہے ہیں۔ ہائبریڈ وار پاکستان اور پاکستان کیخلاف ہے تو اسکا مقابلہ بھی 22کروڑ پاکستانیوں کو ملکر کرنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو رہا اس لیے کہ 22کروڑ کی اکثریت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ دشمن بذریعہ ہائبریڈ وار پاکستان اور پاکستانیوں پر پوری شدت سے حملہ آور ہے۔ اس لیے ہائبریڈ وار کے نشانے پر بھی صرف پاک فوج ہے۔ پاکستانی بھائیو! جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانیوں کو یہ بتائیں کہ یہ ’’ہائبریڈ وار‘‘ چیز کیا ہے؟ اگر یہ غیر روایتی جنگ ہے تو یہ لڑی کس طرح جا رہی ہے، اس میں پاکستان کیخلاف ہتھیار کونسے استعمال کیے جا رہے ہیں؟ اس جنگ کے پیچھے کونسی طاقتیں ہیں ، وہ پاکستان پر چھپ کر حملہ آور کیوں ہیں؟ انکے عزائم اور مقاصد کیا ہیں ؟ وہ اس جنگ کے ذریعے پاکستان سے چاہتے کیا ہیں؟ یہ سب باتیں پاکستانیوں کو بتانا، انہیں اس جنگ کیلئے تیار کرنا کسی کی ذمہ داری ہے ان میں پہلی ذمہ داری علماء دین کی ہے۔ پاکستانیوں آپکو فخر کرنا چاہیے اپنے غیر سیاسی علماء دین پر اس لیے کہ ان علما کی وجہ سے دشمن شیعہ سنی فساد نہیں کر اسکا، فرقہ واریت کو وہ ہتھیار نہیں بنا سکا تو علماء دین کی وجہ سے نہیں بنا سکا۔ دوسری ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے۔ تیسری ذمہ داری میڈیا کی ہے، چوتھی ذمہ داری میڈیائی دانشوروں کی ہے لیکن!!! ان میں کوئی بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ حکومت فکر مند ضرور ہے مگر اسے اس جانب متوجہ ہی نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہائبریڈ وار کا ایک حصہ ہے کہ جس ملک یا قوم کیخلاف ہائبریڈ وار لڑی جائے۔ اسے الجھا کر رکھا جائے اس لیے کہ غیر ضروری اور نئے سے نئے ایشوز پیدا کیے جائیں تا کہ اصل معاملے سے اسکی توجہ ہٹی رہے اور وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ اسکے خلاف ہو کیا رہا ہے؟ اور یہ سب واضح ہونے کے باوجود ذمہ داروں کا خاموش رہنا، نئے سے نئے مسائل میں قوم کو الجھائے رکھنا ،تاریخ میں ایک غیر ذمہ دارانہ، مجرمانہ حرکت کے طور پر رقم ہوگی اور ذمہ داروں کو آنیوالی نسلیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔ جس طرح اعمال و حرکتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ’’ہائبریڈ وار‘‘ کے پیچھے منصوبہ بندی، پلاننگ اور سب باتوں پر مشتمل بیانیہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں فوج کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔بھائیو!!! ’’فوج پر حملے‘‘ یہ بیانیہ ہے ’’ہائبریڈ وار کا‘‘ اور حملے کو چند دوسرے جملوں کے ذریعے بیانیہ بنا دیا گیا ہے بالکل اسی طرح!! آجکل کی سیاست کی پلاننگ و منصوبہ بندی یہ ہے کہ ’’شور مچائے رکھو‘‘ اس لیے کے بے ہنگم و بے ترتیب شور!! کا پہلا فائدہ یہ تاثر قائم ہوگا کہ ہم شور مچانے والے بہت طاقتور ہیں، آئین و قانون، فوج و حکومت ہمارے سامنے بے بس ہے۔ اس شور کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کورونا میں الجھی حکو مت ہمارے شور شرابے سے پریشان ہو کر ترقی کے سب کاموں کو چھوڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو جائیگی جس سے یہ تاثر قائم ہوگا کہ ہم واقعی بھاری پڑ گئے ہیں۔ اس شور میں یعنی گالم گلوچ اور گلو بٹ ٹائپ حرکتوں کی وجہ سے تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جو ہمیں چھوڑ کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہی رہیںگے بھاگیں گے نہیں! پارٹیاں ٹوٹنے سے بچ جائینگی۔ شور شرابے کا چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارا بنایا چالیس سالہ حکومتی نیٹ ورک جس میں پولیس، بیوروکریسی و دیگر سرکاری اداروں کے با اثر و کرپٹ افراد ہیں وہ ہمارا ساتھ دیتے رہینگے اور حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہینگے۔ شور شرابے کا پانچواں فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان بھر کے غنڈے بدمعاش، اسمگلرز، ذخیرہ اندور، ناجائز منافع خور، دوائوں و خوراک میں ملاوٹ کرنیوالے اور دیگر تمام چھوٹے بڑے مافیاز ایک تو ہمیں بھتہ باقاعدگی کے 
ساتھ  دیتے رہیں گے دوئم یہ کہ مصنوعی مہنگائی و شارٹیج پیدا کر کے حکومت کو ناکام و پریشان کر کے حکومت پر اعتراض کے مواقع ہمیں فراہم کرتے رہیں گے۔ شور شرابے میں جس میں اداروں پر حملے بھی شامل ہیں کا چھٹا فائدہ یہ ہوگا کہ یا تو مارشل لاء کے ذریعےNROنہ دینے والے عمران خان سے جان چھوٹ جائیگی یا غداری وغیرہ میں ہم اندر ہو کر سیاسی شہادت پا جائیں گے جو چوری کے جرم میں اندر جانے سے بہت بہتر ہوگا۔اور جو آگاہ ہیں اداروں سے وہ شور شرابے سے قطعاََ متاثر نہیں ہونگے اس لیے کہ یہ شور کرنیوالے 22کروڑ عوام نہیں صرف چند ہزار بیروزگار ہیں جنہیں اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ ’’شور مچائے رکھو‘‘ ’’ ہماری کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹائے رکھو، حکومت کو الجھائے رکھو۔

ای پیپر دی نیشن