سکھ اور گائے والا لطیفہ آپ نے بھی سن رکھا ہوگا۔ بظاہر عام سے ہنسی مذاق والے لطیفوں میں بڑی گہری اور عقل کی باتیں چھپی ہوتی ہیں۔ ایک سکھ کا گزر ہرروز ایک رستے سے ہوتا ہے جہاں اْسے ایک بڑے سینگوں والی گائے دکھائی دیتی ہے۔ سکھ ہرروز اس کے پاس سے گزرتے ہوئے سوچتا ہے کہ اگر اس کے سینگوں میں میری ٹانگیں پھنس گئیں تو کیا ہوگا؟ اسی کشمش میں ایک دن گائے کے پاس سے گزرتے ہوئے رْک گیا اور خود ہی اْس کے سینگوں میں ٹانگیں پھنسا لیں، گائے نے زمین پر پٹخا تو دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ گائے کا مالک افسوس کرنے آیا تو سکھ نے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں کہ ٹانگیں ٹوٹ گئیں لیکن یہ تو پتہ چل گیا ناں کہ اگر اس کے سینگوں میں میری ٹانگیں پھنس جائیں تو کیا ہوتا؟۔ا?ج کل تو سچ پوچھیںہر لطیفے سے پاکستان کے حالات کی سنگینی اور بگڑتے حالات کی طرف خیال چلا جاتا ہے۔ ہم عوام ہر نئے منتخب کرنے والے امیدوار سے اْمیدیں لگا بیٹھتے ہیں۔ اب کی بار بھی ہمیں نیا پاکستان دیکھنے کا اچھا خاصا شوق تھا لیکن شوق میں بازو ٹانگیں تڑوا بیٹھے ہیں ۔نئے پاکستان کے چکر میں پرانے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے یہاں آپ کو وہ مثال بھی یاد آئے گی کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ اس تجربہ گاہ میں ابھی نجانے اور کتنے تجربے کرنے کو باقی ہیں۔ جو آیا ایک نیا تجربہ کیا اور اس کانچ کے برتن کو مزید توڑکر چلتا بنا۔ ہم وعدوں اور دعووں کی گھمن گھیریوں سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ شاید ہر بار کی طرح مستقبل میں بھی ایسی غلطیاں ہم سے سرزد ہوتی رہیں گی اور یاران چمن داغ گل ولالہ دے کر رفاقتوں کے کرب سے گزارتے رہیں گے۔ کچھ عرصہ سے ہم ایسے ہر کام میںاوّل نمبر پر آرہے ہیں۔ جہاں کوئی آخری نمبر پرآنا بھی پسند نہ کرے گا۔ لیں جی تو ہم کرپشن میں بھی یہ معرکہ عنقریب سر کرنے والے ہیں۔ پاکستان کرپشن کے میدان میں بھی تیزی سے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے والا ہے۔ افسوس کیا جائے یا ماتم اور اس غم کا غم بھی کیسے منائیں جبکہ عوام کو دھیان لگانے کا پورا انتظام کیا گیا تھا۔ کبھی چین کا ماڈل بننا ہے۔ کبھی ملائشیا کو فالو کرنے کا پلان تو کبھی امریکہ کے صدارتی نظام پر بحث چل پڑتی ہے۔ دوسری طرف ہم ان تمام خوبیوں کو یکجا کرکے ریاست مدینہ بھی حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ایسی الجھی ہوئی حکومت کے الجھے ہوئے پلان نجانے کیا صورت اختیار کریں گے۔ یہاں تو اس وقت وہ صورت حال ہے کہ
ہاتھ اْلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
صدارتی نظام پر الگ سے بحث چل نکلی ہے۔ کیا یہ بیڈ گورننس پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے کہ ایک نئے نظا م کی تشکیل کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل چار دفعہ صدارتی نظام نافذ ہوچکا ہے اور ہر بار یہ نظام ناکامی کا منہ دیکھ چکا ہے تو پھر کس وجہ سے اس نظام کے نفاذ کی باتیںہورہی ہیںکیا یہ وہی نظام نہیں جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان سے علیحدگی ہمیں تحفہ میں ملی۔ تیسرے صدارتی نظام نے ہمیں کلاشنکوف تک تھما دی۔ عوام کا استحصال ان ادوار میں کس کس طرح سے ہوا۔ جمہوریت اپنی موت کیسے مرتی رہی۔ اس بارے میں کوئی بے خبر نہیں ہے۔ امیر کو امیر تر کیسے بنا دیا گیا دولت کے انبار چند مخصوص جگہوں پر کیسے اکٹھے کئے گئے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ تو اب عوام کو ایک بار پھر یہ تحفہ دینے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن دوسری طرف کوئی ہاتھ روکنے والابھی نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باوجود لاکھ کاوشوں کے اپوزیشن کے دستوں میں بھی کوئی دم خم دکھائی نہیں دیتا
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا
لیکن ملکی حالات میں سامنے والے مکان کے حالات حکومت کو صاف دکھائی دے رہے ہیں لہذا ان تلوں میں تیل نہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ وہ بے نیازانہ استقامت سے اپنے کارنامے انجام دئیے جارہے ہیں۔ چھوڑوں گا نہیں کانعرہ کس نے لگایا تھا اور اب اگر مجھے کسی نے نکالا تو میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔عجیب مضحکہ خیز حالات ہیں۔ پرانے دور کی فلموں کا سین آج بھی چل رہا ہے۔ گنڈاسے، توپیں، بندوقیں سب اسلحہ چلنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اندر ہی اندر کون غداری کر رہا ہے اور کون عیاری ،اس کا فیصلہ بھی شایدجلدیا بدیر ہوجائے گا ۔ ہم نے بہت چرچا سن رکھا تھا کہ تیاری میں بائیس برس کا عرصہ لگا ہے۔ بائیس مہینے کی تیاری بھی پبلک سروس کمیشن میں کامیاب کروا دیتی ہے۔ اب اتنے بڑے ملک کو سنبھالنے کے لئے بائیس برس کا عرصہ ایک معنی رکھتا ہے لیکن اس کے بعد امتحان میں بری طرح فیل ہونے کا نتیجہ سمجھ نہیں آرہا۔آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر مجھے ایک گھنٹہ وقت دے کر کہا جائے کہ کرہ ارض برباد ہونے والا ہے۔ اس کو بچا لو تو میں 55منٹ منصوبہ بندی کرنے میں خرچ کروں گا۔ بائیس سال کی منصوبہ بندی میں کیا منصوبے بنے وہ حکومت جانے اور نیب جانے۔ نہ میں جانوں نہ تو جانے۔