مکرمی! حکومتیں چوتھائی صدی سے ادویات کی ترسیل محفوظ طریقے سے ڈاکٹری نسخہ کے مطابق ماہر علم الادویہ فارماسسٹ کی نگرانی اور مشورہ کے مطابق کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیکرٹری ہیلتھ کے دفتر سے اس امر کا نوٹیفکیشن اگست میں جاری ہو چکا ہے لیکن طاقتور اوران پڑھ مالکان سٹور آج بھی سٹور زپر بڑے اطمینان اور دھڑلے سے ادویات بغیر فارماسسٹ کی نگرانی کے فروخت کر رہے ہیں۔ صرف فارمیسی سٹورز قانون پر عمل کررہے ہیں ۔ پاکستان میں ڈرگ ایکٹ 1976ء لاگو ہے۔ ڈرگ ایکٹ 1998ء کے نام سے اچھا قانون منظور ہوا لیکن اس وقت کے وزیر صحت جاوید ہاشمی نے میڈیکل سٹور مالکان سے ’’مذاکرات‘‘ کر کے اسے نافذ نہ کیا۔ پھر ڈرگ ایکٹ 2007ء منظور ہوا لیکن حکام نے اس کے نفاذ کے لیے ’’مذاکرات‘‘ کے بعد تین سال کے لیے معطل کر دیا۔ معطلی کی مدت ختم ہوئی تو گورنر سلمان تاثیر نے ’’مذاکرات‘‘ کر کے معطلی کی مدت 10 سال کر دی۔ ڈرگ ایکٹ 2017ء اسمبلی سے منظور ہوا یہ بڑا سخت قانون تھا۔لیکن اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ’’مذاکرات‘‘ کیے اور اس قانون کی ہر شق معطل کر دی جو آج تک معطل ہے ۔حکومت جب بھی اصلاح کی کوشش کرتی ہے میڈیکل سٹور والے الرٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ برانڈ کی قیمت پر اکثر و بیشتر جنرک دوابیچتے اور سینکڑوں فیصد منافع کماتے ہیں اور اس منافع پر کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے ہسپتالوں کے گردونواح میں سینکڑوں سٹور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت دوچار کی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ان پڑھ مالکان، سٹور پرفارماسسٹ نہیں رکھتے۔ صرف ڈسپنسر کی سند عارضی طور پر کرائے پر حاصل کر کے لائسنس بنوا لیتے ہیں اور اس کے بعد خود ہی عام دکاندار کی طرح کی تجارت کرتے ہیں اور ڈرگ انسپکٹر صاحبان نہ صرف اس عمل کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ترغیب بھی دیتے ہیں۔ حالانکہ ادویات شفاء کے ساتھ ساتھ بہت خطرناک ضمنی اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان جن کا اصل کام مریض کی تشخیص کر کے نسخہ تجویزکرنا ہے وہ بھی دوائوں کی ترسیل کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ فارماسسٹ کا کام ہے۔ آج کل پھر حکومت ادویہ کی ترسیل کو بہتر کرنے کے لیے ادویہ کے کسٹوڈین اور سٹیک ہولڈرز تربیت یافتہ فارماسسٹ کی نگرانی میں دے چکی ہے لیکن ڈر ہے با اثر؎ ڈرگ مافیا پھر ’’مذاکرات‘‘ کر کے اثر انداز نہ ہو جائے۔ متعلقہ حکام کواس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (ڈاکٹر ظفر اقبال چک نمبر 71/A تحصیل خانپور ضلع رحیم یار خان)