1936 کے امریکی صدارتی انتخابات میں دو امیدوار لینڈن اور روزویلٹ مدمقابل تھے۔ اس وقت کے ایک بہت مقبول میگزین لٹریری ڈائجسٹ نے انتخابی نتائج کی پیش گوئی کے لئے ایک بہت بڑے سروے کا اہتمام کیا، جس کے لیے انہوں نے ایک کروڑ لوگوں کو خطوط لکھ کر ان کی رائے دریافت کی، ان ایک کروڑ لوگوں میں سے تقریبا 25 لاکھ لوگوں نے جواب دیا اور ان نتائج کی بنیاد پر ڈائجسٹ نے پیش گوئی کی کہ عام انتخابات میں لینڈن 57 فیصد ووٹ لے کر بآسانی سے جیت جائے گا۔ جارج گیلپ اس وقت امریکن انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپنین(American Institute of Public Opinion) کا سربراہ تھا۔ گیلپ نے پچاس ہزار افراد پر مشتمل ایک سروے منعقد کروایا اور اس کے نتائج کی بنیاد پر یہ پیشگوئی کی یہ انتخابات روزویلٹ 56 فیصد ووٹ لے کر جیتے گا ۔ گیلپ نیتین ہزار افراد کا ایک ثانوی سروے بھی کروایا اور اس سروے کی بنیاد پر لٹریری ڈائجسٹ کے نتائج کی جانچ کی۔ گیلپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کے لٹریری ڈائجسٹ کے نتائج میں تقریبا 12 فیصد غلطی ہے۔ جب اصل انتخابی نتائج سامنے آئے تو روزویلٹ 62 فیصد ووٹ حاصل کر کے جیت گیا۔ انتخابات کے نتائج گیلپ کے نتائج کے کافی قریب تھے جبکہ لٹریری ڈائجسٹ کا بہت بڑا سروے بری طرح پٹ چکا تھا۔ روزویلٹ نیانتخابات آسانی سے جیت لیے اور گیلپ کی لٹریری ڈائجسٹ کے سروے میں غلطی کی نشاندہی بھی کافی حد تک درست ثابت ہو چکی تھی۔ یہ انتہائی حیران کن بات تھی کے ایک ایسا سروے جس کے لیے محض 50 ہزار افراد سے رائے لی گئی ہے اس کی پیشگوئی درست ثابت ہوجبکہ وہ سروے جس میں 25 لاکھ افراد سے رائے لی گئی، وہ غلط نتائج دے ۔ جلد ہی گیلپ کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی جبکہ لٹریری ڈائجسٹ دیوالیہ ہوگیا اور دو سال کے اندر یہ ڈائجسٹ اپنے کاروبار سے دستبردار ہوگیا۔سوال یہ ہے یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنا بڑا سروے غلط نتائج دے جبکہ ایک چھوٹے سے سروے سے درست نتائج حاصل کیے جا سکیں؟ اس کی وجہ سروے میں شامل افراد یعنی سامپل Sampleکے انتخاب کا طریقہ کار ہے۔ اس کے برعکس گیلپ نے ان خصوصیات کی فہرست تیار کی جو امیدوار کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ؛ مثلا آمدن شہری دیہاتی، عورت اور مرد، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اور اس طرح کی دیگر اہم خصوصیات۔ گیلپ نے ہر گروپ کو ان کی ا?بادی کے تناسب سے کوٹہ الاٹ کیا اور اس کو ٹہ کے مطابق لوگوں کو منتخب کیا۔ گیلپ کے ادارے کے کارکنان منتخب لوگوں سے مل کر خود انٹرویولیے اور اس بنیاد پر نتائج مرتب کئے جن سے واضح ہوا کہ روزویلٹ جیت جائے گا۔ گیلپ نے مزید تین ہزار افراد پر مشتمل چھوٹا سروے بھی کروایا جس میں انہوں نے لٹریری ڈائجسٹ کا طریقہ کار استعمال کیا، اور یہ اندازہ لگایا کے لٹریری ڈائجسٹ کے نتائج اصل نتائج سے کتنے مختلف ہوں گے۔ اسی سروے کی بنیاد پر گیلپ کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو آج تک قائم ہے اور یہی میراث گیلپ پاکستان کی بھی بنیاد ہے۔ گیلپ نے بعد ازاں سروے کے طریقہ کار کو مزید بہتر بنایا اور ہر امریکی صدارتی انتخاب سے قبل گیلپ کے سروے منعقد ہوتے رہے جو کسی دوسری آرگنائزیشن کی نسبت بہتر پیشگوئی کے لئے مقبول رہیہیں ۔ گیلپ کی مقبولیت آج تک قائم ہے اور آج بھی گیلپ کے سروے پروفیشنل افراد کے لیے بہت معنی خیز ہوتے ہیں۔مندرجہ بالا کہانی سے یہ واضح ہے کے غلط طریقہ کار پر مبنی بہت بڑا سروے درست نتائج کی ضمانت نہیں دیتاجب کہ درست طریقہ کار پر مبنی ایک چھوٹا سا سروے بہت درست نتائج دے سکتا ہے۔ اچھے سروے میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے موجود ہونی چاہئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی ادارے گیلپ کی طرح سائنسی انداز میں سامپل (سروے میں شامل افراد)منتخب کرتے ہیں، اس لئے سامپل چھوٹاہونے کے باوجود کافی حد تک درست نتائج مل سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گیلپ نے 3000 افراد کے سروے کی بنیاد پر لٹریری ڈائجسٹ کے نتائج حاصل کر لئے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر طریقہ کار درست ہو تو 3000 کا سروے بھی کافی ہوتا ہے، لاکھوں کے سامپل کی ضرورت نہیں رہتی۔
المختصر یہ کہ بہت چھوٹا سروے بھی درست پیشگوئی کر سکتا ہے اگر اس کیلئے جواب دینے والے افراد کا انتخاب سائنسی انداز میں کیا گیا ہو اور ایک بہت بڑا سروے غلط نتائج دے سکتا ہے، اگر افراد کا انتخاب درست طرح سے نہ کیا گیا ہو۔ مثلا ایک آرگنائزیشن صرف کراچی سے 10 لاکھ افراد سے انٹرویو لیکر یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت 35 فیصد ہے ، تو یہ نتائج شاید کراچی کیلئے درست ہو جائیں، پورے پاکستان کیلئے درست نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر انٹرنیٹ کے زریعے سروے کیا جائے تو اس میں کم تعلیم والے اور زیادہ مصروفیت والے لوگوں کی طرف سے جوابات وصول ہونے کے امکانات بہت کم ہوں گے، کم عمر افراد کا تناسب بڑی عمر والے افراد کی نسبت زیادہ ہوگا۔ اس لئے اس سروے کے نتائج ملک کی مجموعی آبادی کے نمائندہ نہیں ہوں گے۔ ایک اچھے سروے کیلئے جواب دہندگان کا انتخاب اس طرح کیا جانا چاہئے کہ متعلقہ ا?بادی کے ہر فرد کے منتخب ہونے کے امکانات ایک جیسے ہوں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انتخابات کے نتائج کی درستگی کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ سامپل کیسے منتخب کیا گیا۔ یہ بات مدنظر رہے کہ ٹرنسپیرنسی انٹرنیشنل اصل کرپشن کو نہیں ناپتا بلکہ کرپشن کے حوالے سے عوامی احساسات کو ناپتا ہے۔ چنانچہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ دراصل یہ بتاتی ہے کہ عوام موجودہ حکومت کے کرپشن مٹانے کے دعووں سے کتنا متفق ہیں۔ اس رپورٹ سے کرپشن کے اصل حجم کا اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم لوگوں کے احساسات کس رخ جارہے ہیں، اس کا اندازہ زیادہ بہتر انداز میں لگایا جاسکتا ہے۔