پاکستان میں تو اقتدار کی کشمکش میں ہر طرف سے بہت کچھ کہا جا رہاہے اور ایک طرف سیاست نہیں ریاست بچانے کےلئے سیاسی سرمائے کو قربان کر دینے کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف سے کہاجا رہاہے کہ ملک پریہ نازک وقت اس لئے آیا ہے کہ ان کی حکومت سازش سے ختم کی گئی۔ اصل حقائق جوبھی ہوں پاکستان اس وقت بھا رت اور بنگلہ دیش سمیت بہت سے ملکوں کی شہریوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔مودی ہمیں کٹورا لے کرمانگنے پر مجبور کردینے اور ہماری اکڑ نکال دینے کی باتیں کرنے لگے ہیں اور بنگلہ دیشی قیادت پاکستانی روپے اور بنگلہ دیشی ٹکے کے فرق کو ماضی کے واقعات سے جوڑ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کررہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک طرف الیکشن آئین کے مطابق کرانے اور دوسری طر ف کسی نہ کسی طرح الیکشن کو ٹالنے کیلئے تاش کے پتوں کے نہلے پردہلے کا سلسلہ جاری ہے۔ایک طرح سے شطرنج کی بساط پر سارے قابل احترام آئینی عہدوں کو بٹھا کر تماشا سا لگا دیا گیا ہے ۔ اور اس پس منظر میں جب غیر ملکی اور خاص طور پر فنانشل ٹائمز جیسے اخبارات کی خبروں کودیکھا جائے توواقعی تشوش ہونے لگتی ہے ۔ امریکی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے کہا ہے پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے ہیں۔ جنوری کی 23 تاریخ کو ہونے والے بجلی کے ملک گیر بریک ڈاﺅن نے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ پاکستان کو زر مبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے اورکاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 5 بلین ڈالرز سے بھی کم رہ گئے ہیں جو ایک مہینے کی امپورٹ سے بھی کم ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 بلین ڈالر کے امدادی پیکج پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال سنگین ہوگئی ہے اور پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہونے کا خدشہ ہے ۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان میں بجلی کی بندش اور غیرملکی زر مبادلہ کی شدید کمی سے کاروبار کا چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ عوام تو فیض کی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ :
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جوواجب بھی نہیں تھے
لیکن ہمارے کج کلاہ راہنماﺅں کا یہ حال ہے کہ وہ معاملات کو سلجھانے کی کوشش بھی کر رہے اور ساتھ ہی بہت سے نئے بحران بھی پیدا کئے جا رہے ہیں،کسی قوم پر جب ایسا وقت خواہ کسی بھی وجہ سے آ جائے تو پوری قوم کو یکسو ہوکر سوچنا پڑتا ہے مگر ہمارے ہاں سیاست کی برکات سے قوم مزید حصوں میں بٹتی جا رہی ہے۔چونکہ ایسے حالات میں زیادہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے اس لئے اس وقت حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے کندھوں پرزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے موجودہ گھمبیر صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ ہمیں ایک ایک روپیہ بچانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ جب حالات ایسے ہیں تو اسکا آغاز سرکاری بچتوں سے ہوتودوسروں کو زیاد ہ ترغیب ملے گی ۔ انہیں ستر اسی وزرا اور کئی مشیر اس لئے رکھنا پڑے ہیں کہ حکومت میں حصہ لئے بغیر کوئی اتحادی خوش نہیں رہ سکتا ۔ کیا پی ڈی ایم میں شامل 13 جماعتوں میں سے کوئی ایسا نہیں جویہ کہے کہ وزیر اعظم صاحب ہم وزارت سفارت یا کوئی عہدہ لئے بغیر حکومت کے ساتھ ہیں ۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ خزانے سے خالی ایک ریاست میں سب کو وزارت عہدوں گاڑی بنگلوں کے ذریعے سرخ رو ہونے کا لالچ ہے ۔ وزیر اعظم کو ہمت کرکے کابینہ کو دس بارہ وزرا تک مختصرکرنا چاہئیے ۔ وقتی طور پر سرکاری ٹرانسپورٹ کا زیادہ حصہ کھڑا کر دیا جائے ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے کوٹے سے حصہ دار ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ مسلسل خود ۔ چٹھی میرے ڈھول نوں پہچاویں وے کبوترا ۔۔ بن کر بیروان ملک پروازیں کرتے رہیں۔ ان پر اغیار کی جانب سے ائرفورس کے طیارے کے بہت زیادہ استعمال کا بھی طنز کیا ہے ۔کیا پڑوسی ملک بھارت یا بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ بھی اسی طرح ائر فورس کے طیارے پرمسلسل دوروں پر رہے ہیں ۔قوم میں بچت کا احساس اس وقت پیدا ہو گا جب لیڈر بچت کرتے نظر آئینگے ۔اورو ں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت اسی حوالے سے کہا جا تا ہے ۔ اب جبکہ آئی ایم ایف سمیت سب آنکھیں دکھا رہے ہیں اور امریکا تک نے پاکستان کو 200 ملین ڈالر کی امداد پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ امداد کے استعمال کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کو 200 ملین ڈالرز کی امداد پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں گے ، ا۔امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی مانیٹرنگ کیلئے مختلف جگہوں کے دورے کیے جاتے ہیں، امریکی ڈیزاسٹر سینٹر نے پاکستان کے کئی علاقوں کا دورہ کیا، جہاں اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کےساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی قیادت کی طرف سے یہ کہا جا چکا ہے کہ ان کا ملک پاکستان کی مدد کرے گا مگر دوطرفہ ذمہ داری کےساتھ ۔ایسے حالات میں دو باتیں ضروری ہیں ایک تو حقیقی معنوں میں بچت کی جائے اور بھاری بھر کم وزارتیں ختم کی جائیں درجنوں افراد کے ساتھ غیر ملکی دورے اور مہنگے ترین مقامات پر ٹھہر کر خزانے کو لٹانے کا سلسلہ ترک کرکے قوم کے اعتماد کو بحال کیا جائے اور دوسرا اور اہم ترین یہ کہ قوم کو باہمی تصادم سے بچانے کیلئے بے جا محاذ آرائی کا ماحول ختم کیا جائے ۔ الیکشن کمیشن انتخابات کو وقت پر کرانے کی ذمہ داریاں پوری کرے اور حکومت بے جا گرفتاریوں اور ایک دوسرے کی کنڈ زمین پر لگانے کی روائت کو جاری رکھنے سے ہاتھ کھینچ لے۔ اس طرح قومی یکجہتی کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے ۔ کیا اب وہ وقت نہیںآ گیا کہ تمام اختیارات والے اپنے اپنے اندر جھانکیں اور ایک دوسرے کیخلاف ذاتی پرکاش کے زنگ کو کھرچ کر اپنی طرف سے اللہ سے وعدہ کریں کہ وہ قوم و ملک سے مخلص ہو کر اپنا کردار ادا کرینگے۔ اور سب سے آخر میں یہ کہ ۔ کاش یہ چٹھی بھی کسی ڈھول تک پہنچ جائے۔