حکومتی وسائل مناظرے بازی کی بجائے  معیشت کی بہتری پر صرف کریں


 وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ملک مشکل میں ہے۔ توقع ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے اس ماہ معاہدہ ہو جائے گا اور ملک گرداب سے نکل جائے گا۔خدا کرے ایسا ہی ہو‘ لیکن اب تک کی جانے والی کوششوں کے مثبت نتائج تو سامنے نہیں آسکے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکمران کسی معجزے کے منتظر ہیں اس کا واضح ثبوت وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذمے ہے۔ اگر اللہ نے پاکستان کو بنایا ہے تو اس کی حفاظت‘ ترقی‘ خوشحالی اس کے ذمے ہے۔اسحاق ڈار پاکستان کی وزارت خزانہ کا تین مرتبہ قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ ان کا تجربہ اور حکومتی معاملات پر گرفت غیرمعمولی تصور کی جاتی ہے۔ اب جبکہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر ملک کی گرتی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے خصوصی طورپر لندن سے بلوائے گئے ہیں تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے دعوﺅں کی لاج رکھتے ہوئے معیشت کو بحال کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لاتے ‘ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ الٹا معیشت پہلے سے بھی برے حالات سے دوچار ہو گئی ہے۔ وہ اس خرابی کا دوش عمران خان کی پالیسیوں کو دے رہے ہیں جبکہ انہوں نے معیشت کو عمران خان والی سطح پر ہی برقرار رکھنا تو کجا اس سے بھی بدترین صورتحال سے دوچار کر دیا ہے ۔ آج سونا 2 لاکھ روپے فی تولہ سے بھی مہنگا ہو چکا ہے۔ ڈالر 269 روپے کا ہو گیا۔ سٹاک مارکیٹ میں مندا ہے۔ سرمایہ کاروں کے 62 ارب سے زائد ڈوب گئے ہیں۔ اسکے باوجود وزیر خزانہ سابق وزیراعظم عمران خان کو مناظرے کا چیلنج دے رہے ہیں۔ اگر اتحادی حکومت اپنی تمام تر توجہ ملکی معیشت کی بہتری پر مرکوز کرتے ہوئے کوئی مثبت پیش رفت کرتی ہے تو اس سے یقینی طورپر اس کی ساکھ بھی بہتر ہو سکے گی اور اس کی مقبولیت کا گراف بھی عوام میں خود بخود بڑھ جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن