’’تم نے احسان کیا ہے کہ نمک چھڑکا ہے۔۔۔‘‘


  غلام مرتضیٰ
تم نے احسان کیا ہے کہ نمک چھڑکا ہے 
اب مجھے زخم جگر اور مزا دیتے ہیں 
دوستو یہ شعر تورشید لکھنوی کا ہے ا ن کا تعارف توبعد میںکراتا ہوں لیکن اس سے قبل یہ بتاتاچلوں کہ مجھے ان کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے  ایک روزگھر پہنچے ،منہ ہاتھ دھویااور دستر خوان پر بیٹھ گئے۔چشم تصور میں بہت لذیز قورمہ تھا، رال ٹپک رہی تھی۔ ان کی اہلیہ کی آواز نے تصور سے حقیقی دنیا کاراستہ دکھایا بولیں یہ لیں قورمہ اور روٹیاں۔۔۔ روٹیاں دیکھ کرتووہ خیر چپ رہے، جیسے ہی نوالہ منہ میں رکھا تونا مرچ نا نمک۔۔۔ نوالہ حلق میں اتر ہی نہیں رہا تھا۔جیسے تیسے کرکے پانی کے گھونٹ پی پی کر اتارا۔زوجہ  نے کہا لذیذ ہے ناں، اس پر صرف سر ہی ہلایا اورخاموش رہے، اس سے پہلے  کہ کچھ بولتے،ان کی زوجہ محترمہ بولیں اجی ہم تو بناتے ہیں بہترین اور لذیز کھانا ۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے صرف اتنا کہا کہ زوجہ محترمہ نمک دانی لے آئیں ذرا بس منہ مزید کرارا کرنا ہے۔ اس پر یہ سننے کو ملا کہ نمک زیادہ نہ کھایا کریں یہ صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہوتا،ان کے بقول وہ اپنا سا منہ لے کر خاموش ہوگئے۔ازراہ تفنن کھانے میں اگر نمک نہ ہوتو ہنڈیا کیا خاک بنتی ہے۔پر دوستو نمک پاشی اگر زخموں پرکی جارہی ہوتو نمک چھڑکنے والے کو توتسکین ملتی ہے لیکن حقیقت میںاس کاتصور ہی کیا جاسکتا ہے بس۔
خیر دوستو بات ہورہی تھی شاعر رشید لکھنوی کی تو ان کے بارے میں بتاتا چلوں کہ میر ببر علی انیس کے نواسے رشید لکھنوی کا نام سید محمد مصطفی مرزا تھا، رشید تخلص کرتے تھے۔ ان کی پیدائش 5 مارچ 1847  ء کو لکھنئومیں ہوئی۔ گھر میں شعر وشاعری کا ماحول تھا ان کے والد احمد مرزا صابر بھی شاعری کرتے تھے اور ان کے چچا عشق وتعشق ( لکھنوی ) کا شمار بھی اہم ترین شاعروں میں ہوتا تھا۔ علم وادب کی اس بھری پری فضا میں رشید لکھنوی نے پرورش پائی۔رشید لکھنوی نے مرثیہ، غزل اور رباعی کی اصناف میں شاعری کی۔رشید لکھنوی کا ایک شاعرانہ کمال ان کی وہ رباعیاں ہیں جو انہوں نے عرصۂ شباب اور عرصہ ٔپیری کو موضوع بنا کر کہی ہیں۔ اس مضمون کو سلسلہ وار انداز میں جس خوبصورتی سے رشید نے برتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
ان کی رباعی ہے 
پیری میں حواس و ہوش سب کھوتے ہیں 
کب عہد جوانی کے لیے روتے ہیں 
ہشیار شباب میں تھے پیری میں ہیں غش 
شب بھر جاگے تھے صبح کو سوتے ہیں 
 ایک اور رباعی ہے کہ 
احباب ملاقات کو جو آتے ہیں 
ناحق مجھے غم دے کے چلے جاتے ہیں 
مجھ کو ہے وہی شام ِ جوانی کا خیال 
اب صبح ہے میرے منہ پہ فرماتے ہیں
ان کا شعرہے کہ
ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے جلانا ثواب ہے 
ظالم یہ میرا دل ہے چراغ  ِحرم نہیں 
ایک اور شعر دیکھیے
انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے 
نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا 
رشید لکھنوی نے مرثیہ، غزل اور رباعی کی اصناف میں شاعری کی۔ رشید کے پیچھے اگرچہ مرثیے کی ایک روایت تھی لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں زبان، بیان اور موضوعات کی سطح پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔رشید لکھنوی مرثیہ خوانی کے فن میں بھی کمال رکھتے تھے اور  اہم مجالس میں مدعو کئے جاتے تھے۔
ہماری زندگی و موت کی ہو تم رونق 
چراغ بزم بھی ہو اور چراغ فن بھی ہو 
ایک اور مقام پر کیا خوب کہا
اپنی وحشت سے ہے شکوہ دوسرے سے کیا گلہ 
ہم سے جب بیٹھا نہ جائے کوئے جاناں کیا کرے 

ان کی ایک خوبصورت غزل کے کچھ اشعار ہیں 

مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی 
موت کا پیغام آئے گا زبانی آپ کی 
زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے 
مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی 
بعد مردن کھینچ لایا جذب دل سینے پہ ہاتھ 
اک انگوٹھی میں جو پہنے تھا نشانی آپ کی 
بڑھ چکا قد بھی فروغ حسن کی حد ہو چکی 
اب تو قابل دیکھنے کے ہے جوانی آپ کی 

ایک اور غزل کے کچھ اشعار ہیں کہ 

شروع اہل محبت کے امتحان ہوئے 
اب ان کو ناز ہوا ہے کہ ہم جوان ہوئے 
سبھوں کی آگئی پیری جو تم جوان ہوئے 
زمیں کا دل ہوا مٹی خم آسمان ہوئے 
غضب سے کم نہیں ہوتا وفور رحمت بھی 
میں ڈر گیا وہ زیادہ جو مہربان ہوئے 

ان کا ایک شعر ہے کہ

دونوں آکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک 
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن