تعلیمی بورڈز میں مارکنگ کا انتہائی ناقص طریقۂ کار

؎
سیّد روح الامین
 تعلیمی بورڈز میں مارکنگ کا انتہائی گندہ اور ناقص نظام ہے جس سے بچوں کی حق تلفی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ پہلے تو شروع سے ہی ہمیں اپنی قومی زبان اُردو سے سازش کے تحت دُور رکھا گیا ہے۔ یہاں نہ ہی کسی کو بانی پاکستان کے ارشادات کی پرواہ ہے نہ ہی 73ء کے آئینِ پاکستان کی پاسداری کا خیال۔ اگر 75سال قبل ہی قومی زبان اُردو کے نفاذ کے ساتھ اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنایا جاتا تو بخدا آدھی سے زیادہ آبادی تعلیم یافتہ ہوتی۔ آج ہمارے بچے ایک غیرملکی زبان کو یاد کرنے کے لیے بغیر سمجھے رٹے لگانے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ پہلے مارکنگ کا نظام بہت ہی بہتر تھا۔ بورڈز سے انتہائی سینئر اساتذہ بلکہ سکولز کے ہیڈ ماسٹر صاحبان کو جن میں اُنہیں مہارت حاصل ہوتی پیپرز چیکنگ کے لئے بھجوائے جاتے۔ وہ اساتذہ قابل، ذہین ہونے کے علاوہ بے لوث بھی کام کرنا عبادت سمجھتے تھے۔   غریب بچے جو گھر کے کاموں میں والدین کا ہاتھ بھی بٹاتے اور پڑھائی بھی کرتے اکثر بورڈز میں پوزیشن وہ ہی حاصل کرتے تھے۔ اب صورتِ حال مکمل بدل چکی ہے۔ امتحانات کے بعد ہر ضلع میں مارکنگ کے لئے کئی سکولز سنٹرز بنا دیئے جاتے ہیں۔ ہر سنٹر میں ایک ہیڈ ہوتا ہے بس سارا نظام اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ نے پرچے چیک کرنے ہیں تو بورڈز سے آئی ڈیبنوانی ہے۔ سرکاری اساتذہ کو زیادہ اولیت دی جاتی ہے۔ پرائیویٹ اساتذہ بھی ایک فارم مکمل کر کے اپنے پرنسپل سے تصدیق کرا کے لے جاتے ہیں۔ ساتھ جو مضمون آپ پڑھاتے ہیں اُس کا ٹائم ٹیبل بھی لگایا جاتا ہے۔ فرض کریں آپ سکول میں انگلش پڑھاتے ہیں۔ پرچے آپ اُردو کے چیک کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کمپیوٹر سے اُردو کا اپنا ٹائم ٹیبل بنوا کر پرنسپل صاحب سے تصدیق کرا لیں تو کام چل جائے گا۔ اگر آپ کی اپروچ ہے تو پھر تو بھلے ہی بھلے؟ پھر آ پ کی  آئی ڈی بن جائے گی۔ یہ زندگی میں ایک ہی بار لینی ہوتی ہے۔ ایک اور بات قابل اساتذہ سنٹرز پر جا کر پرچے چیک کرنے سے ٹیوشنز پڑھانے اور اکیڈمیاں چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ سنٹرز کے ہیڈ صاحبان کو جب متعلقہ مضمون کے چیک کرنے والے اساتذہ نہیں ملتے تو ایک طرف تو پرچوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور بورڈز میں یہ جلدی بھی بھجوانے ہوتے ہیں تو وہاں ہیڈ صاحبان جو وہاں اساتذہ آتے ہیں اُن کے ترلے منتیں کرتے ہیں۔ ہاں جی مس صاحبہ آپ کی آئی ڈی تو انگریزی کے لیے بنی ہے مگرآپ یہ اُردو یا اسلامیات کے بنڈل بھی پلیز چیک کر دیں۔ آرٹس مضامین کا یہ حال ہے اگر آپ نے اسلامیات کے لئے  آئی ڈیبنوائی ہے تو پھر آپ اُردو، مطالعہ پاکستان  وغیرہ بھی چیک کر سکتے ہیں۔ سنٹرز پر جو صاحبان چیک کرنے آتے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اچھا پچھلے سال میں نے ایک لاکھ کے پیپر چیک کیے تھے اَب میں نے دو لاکھ کے ہرحال میں کرنے ہی ہیں۔ جوانی میں  جس میل یا فی میل ٹیچر نے آئی ڈیبنوائی تھی اب وہ ریٹائر ہونے کے بعد 70سال کی عمر میں بھی اُسی آئی ڈی پر پرچے چیک کرنے آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس عرصے میں نصاب کتنی بار تبدیل ہو گیا ہے؟ یہ آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُردو کا ٹیچر قائد اعظم کے چودہ نکات کیسے چیک کرے گا؟ اسلامیات کا ٹیچر یا عربی کا ٹیچر میر و غالب کی غزلوں کی تشریح چیک کر پائے گا؟ ایک اور بات بھی ہے اگر آپ پیپر چیک کرنے جاتے ہیں تو آپ کی بہن یا بھائی نے ایم۔ اے یا بی۔ اے کر رکھا ہے اور ہیڈ کے ساتھ شناسائی ہے تو وُہ آپ کو کہے گا کہ آپ کسی بھی سکول سے فارم تصدیق کرا لائیں۔ لوازمات ساتھ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوتا تو وہ اُس کو اُدھر ہی کمپیوٹر سے بورڈز میں کہہ کر  آئی ڈی بنوا دے گا۔ صبح آٹھ سے شام 6یا 7بجے تک جب تک ہیڈ صاحب نہیں جاتے آپ دھڑا دھڑ مارکنگ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ہم نے مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے۔ اب رزلٹ کے بعد ری چیکنگ  کا مرحلہ ہے جس میں صرف بورڈز نے فیسوں کی مَد میں کمائی کرنی ہوتی ہے۔ بچوں کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کیسے؟ رزلٹ آنے کے بعد چودہ دن کے اند رری چیکنگ  کے لیے اپلائی کریں گے۔ پھر ہر پرچے کی علیحدہ علیحدہ فیس دینا ہو گی۔ آپ نے فیس ادا کر دی فارم بھیج دیا۔ پہلے تو سال بھی آپ سے کوئی رابطہ نہیں کرے گا۔ اگر آپ جا ن پہچان سے وہاں پہنچ ہی جاتے ہیں تو آپ کو متعلقہ پرچہ دکھایا نہیں جائے گا۔ بس یہ دیکھا جائے گا کہ گنتی میں کمی تو نہیں رہ گئی۔ اگر آپ نے بالکل درست سوال لکھا ہے مگر نمبر آپ کو دس میں سے صرف تین ملے ہیں تو آپ کسی بھی عدالت میں سوائے اللہ تعالیٰ کی عدالت کے چیلنج نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کو دکھایا بھی گیا اور کسی سوال کے نمبر لگنے سے رہ گئے تو پھر بھی بخدا آپ خالی ہاتھ لوٹیں گے ۔ اتنا گندہ سسٹم کہ بس خُدا کی پناہ۔ بورڈز کے متعلقہ کلرک صاحبان ’’بادشاہ‘‘ ہوتے ہیں۔ لمبی لمبی گاڑیاں باہر کھڑی ہوتی ہیں۔ اگروہ آپ سے اخلاق سے بات ہی کر لیں تو آپ خود کو خوش قسمت جانیے۔ اچھا زبانی امتحان کے بھی ایک سَو یا ایک سو دس نمبر ہوتے ہیں۔ یہ صرف ’’اپروچ‘‘ سے ملتے ہیں۔ اگر ممتحن صاحب تک آپ کی رسائی ہے تو پورے کے پورے نمبر بھی لگ سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھیوری میں تو بچہ فیل ہوتا ہے مگر پریکٹیکل کے نمبر سارے مِل جاتے ہیں۔ تعلقات، کرپشن سبھی کچھ ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مارکنگ کا نظام، طریقہ کار انتہائی ناقص اور گندہ ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اصلاح کون کرے گا؟ کب کرے گا؟

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن