گزرے دنوں کی یادـیں


عرض ِحال …سید محمد طیب ایڈووکیٹ

 ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں لوگ سر شام کھانا کھاکر بہت جلد سو جایا کرتے تھے اور صبح تڑکے اُٹھ جاتے تھے ۔ روکھا سوکھا ناشتہ کرکے اپنے کام کاج پر نکل جانا اور دوپہر کے لگ بھگ گھر واپس آنا زندگی کا معمول تھا۔ دیہات میں کسی ایک ڈیرے پر چند بزرگ ایک کونے میں بیٹھے حقہ پیتے وہیں آس پا س چند ایک بچے بنٹے یا گلی ڈنڈا کھیل رہے ہوتے اور دو چار نوجوان بھی ایک ٹولی کی شکل میں ادھر اُدھر چارہ وغیرہ کاٹنے یا گپ شپ میں مشغول ہوتے اور ایک کونے میں مال مویشی بندھے ہوتے۔ دو چار گھنٹے دھوپ میں بیٹھ کر اپنی وٹامن ڈی پوری کرکے لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے۔ گائوں کے مصروف ترین لوگوں میں ایک موچی ہوا کرتا تھا جوکہ گائوں کے لوگوں کے جوتے تیا ر کرتا تھا جسکو پندرہ بیس دن قبل جوتے تیار کرنے کا آرڈر دینا پڑتا تھا ۔پورے گائوں میں ایک کمپائوڈر ہوا کرتا تھا جو پورے گائوں کے ہر چھوٹے بڑے کو ہر طرح کی بیماری میں شافی علاج کے مشورے دیتا تھا اور گر بیماری زیادہ ہوتو کوئی چھوٹی موٹی گولی بھی دے دیتا تھا کمپائوڈر چار جماعتیں پاس ہوا کرتا تھا اسلئے اسکی بات میں وزن محسوس کیا جاتا تھا پرانے حکیم اور سنیاسی باوے کمپائوڈر کے آجانے کو اپنے بے لوث پیشیہ کیلئے کبھی کبھار خطرہ بھی محسوس کرنے لگتے تھے۔ یہ حکیم باوے ہر بیماری کی تشخیص نبض یا زبان کی رنگت دیکھ کر کرلیا کرتے تھے اور ہر طرح کی بیماری  کے لیے ان کی ایک ہی پھکی ہو اکرتی تھی کوئی سنگین بیماری ہو تو حکیم صاحب مربہ ہرڑ یا سیب کامربہ تجویز کردیا کرتے تھے گائوں میں ایک ماسٹر بھی ہوا کرتا تھا جو گائوں کے بچوں کو ابتدائی تعلیم دیتا تھا اور لوگوں کو خط وغیرہ پڑھ کر سناتا اور ان کے جواب بھی لکھ کردیا کرتا تھا ، دیہاتی لوگوں کی سیر و سیاحت کسی دوسرے نزدیکی گائوں میں کسی دوست یار کے ڈیرے تک ہی ہوا کرتی تھی ، ذرائع آمد ورفت میں پیدل مارچ ہی تھا ہاں گائوں میں کسی ایک آدھ صاحب حیثیت کے پاس گدھا ہو اکرتا تھا جوکہ گائوں کے لوگ بھی مانگ کر لے جایاکرتے تھے وہ گدھا سامان وغیرہ کی نقل و حمل کے لیئے بھی استعمال ہوتا تھا بس کم و بیش یہی کچھ شب و روز کی مصروفیت تھی اس صورتحال میں لوگ خوشحال تھے، اور صحت مند تھے ، کوئی لمبی چوڑی نہ تو خواہشیں تھیں اور نہ ہی حسرتیں، جیب میں شاہد پھوٹی دو کوڑیاں ہی تھیں مگر لوگ سخی تھے، مطمئن تھے اور غموں فکروں سے آزاد تھے بیماریوںسے محفوظ لمبی عمریں تھیں ، گائوں بابوں ، مائیوں اور ماسیوں سے بھرے پڑے تھے۔ 
گھر بھلے مٹی کے گھروندے تھے مگر ان میں برکت تھی، رشتوں میں چاہت تھی،آپس کی محبت تھی، لوگوں میں ادب آداب، لحاظ اوروضع داری تھی، طمع ، لالچ، دھوکہ ، فراڈ ، عیاری، مکاری اور فریب وغیرہ کا نام و نشان تک نہ تھا کھیتی باڑی اور کاشتکاری وغیرہ ہی سب سے معتبر پیشہ تھا، لوگ اجناس اگاتے تھے اور کھاتے تھے ۔ بس پھر نہ جانے کیا ہوا ، کس کی نظر لگ گئی کہ آہستہ آہستہ وقت بدلنا شروع ہوا روپیہ پیسے کا دور شروع ہوا لوگوں نے بیرون ملک جانے اور پیسہ کمانے کی دوڑیں لگادیں۔ سائنسی ایجادات نے سیدھے سادھے آدمی کی مت مار کے رکھ دی ۔ مشینی دور شروع ہوگیا روپے پیسے کی ریل پیل نے اپنی تباہیاں دکھانا شروع کردیں۔ دیکھا دیکھی لوگوں نے مقابلے کے طور پر بیرون ممالک جانے کے خواب دیکھنا شروع کرئیے ، بس بمشکل دو تین دھائیوں نے ساری دنیا بدل کر رکھ دی۔ آج کھیت کھلیان ہاوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ، کچے مکانات محلات میں تبدیل ہوچکے ، حکیم بابوں اور کمپائوڈر وں کی  جگہ بڑے بڑے ہسپتال اور لیبارٹریاں بن چکی ہیں، گدھا گاڑی کی جگہ بڑی بڑی قیمتیں گاڑیوں نے لے لی ہے، کھیتوں میں کام کرنے والے اب بیرون ملک کے مکین بن چکے ہیں دیہاتوں کے ڈیرے اور حویلیاں اب محلات میں تبدیل ہوچکی ہیں ، گائے بھینس کے باڑے کی جگہ پر گاڑیاں قطار باندھے کھڑی ہیں ۔ وہ پرانے سادہ لوح بابے بے چارے اب مر کھپ چکے ہیں اب جدید اور نفسا نفسی کا دور دوَرہ ہے ہر جانب پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، دو کو چار اور چار کو آٹھ کرنے کے پیچھے سب بھاگ رہے ہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ غذائیں موجود ہیں مگر برکت اٹھ چکی ہے۔ بہترین ادویات موجود ہیں مگر سنگین اور مہلک بیماریاں عام ہیں ،عشرت کدے موجود ہیں مگر سکون قلب موجود نہیں، روپے پیسے کی بہتات ہے مگر ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مادہ پرستی نے طمع، لالچ، دھوکہ اور فراڈ کو متعارف کرواکر مضبو ط سے مضبوط ترکردیا ہے۔ سادگی ختم ہوگئی اور عیاری مکاری جنم لے چکی ہے حرصِ دنیا نے لحاظ ، وضع داری اور شرافت کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے سائنسی ایجادات نے انسان کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے ، ہرکوئی بلاوجہ ہی مصروف ہے۔ ہر کوئی پریشان حال ہے، بے سکونی ہر گھر کی زینت نظر آتی ہے۔ اولاد کے مستقبل کے نام پر روپے پیسے کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔ اس مشینی دور نے آج کے انسان کو بھی ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ سچ پوچھیں تو ان سہولیات نے انسان کو لاغر، لاچار اورکم کوس بناکر رکھ دیا ہے۔ آج ہم مادہ پرستی اور حصول مال و دولت کی دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہیں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ ہمارا مقصد حیات صرف اور صرف پیسے  کا حصول ہے بس ہم اس دنیا میں پیسہ بنانے آئے ہیں اور مرتے دم تک اسی کے حصول میں مشغول رہیں گے۔ اس دھوکے کی دنیا میں یہ دوڑ حماقت اور بے وقوفی کے سواء کچھ نہیں، اس روپے پیسے نے لوگوں کے دن کا چین اور رات کی نیند تباہ کرکے رکھ دی ہے اپنوں کو بیگانا اور دوستیوں کو دشمنیوں میںبدل کر رکھ ڈالا ہے۔ رشتے ناطے تعلق سبھی کچھ ختم ہوچلا ہے کسی کے پاس دو منٹ کا وقت نہیں کہ وہ کسی کے پاس بیٹھ کر خیر وعافیت معلوم کرسکے کسی کے دکھ درد بانٹ سکے۔ اس مادہ پرستی نے چار دن کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کررکھا ہے مشینی اور سائنسی ترقی بھی مادہ پرستی کی آبیاری کررہی ہے۔ اس مصروف زندگی میں چند دن قبل ایک سکون کا لمحہ آیا کہ جب فنی خرابی کی وجہ سے ملک گیر بجلی بند ہوئی۔ اگرچہ اس سے کچھ معمولات متاثر  ہوئے ۔ مگر اس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سبھی لوگ جلد جلد اپنے گھروں کو پہنچے ، جلد ہی رات کا کھانا کھایا، فون، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی بندش سے ایک پُر سکون زندگی کی جھلک دکھلائی دی بازار مارکیٹیں بھی جلدی بند ہوگئیں لوگ رات کو جلد سو گئے اور علی الصبح بیدار بھی ہوگئے سچی بات تو یہ ہے کہ اس پر سکون ماحول اور راحت و اطمینان کا بھی ایک اپنا ہی مزہ تھا چند ہی گھنٹوں میں ماضی کے دنوں کی یاد تازہ ہوگئی کوئی موم بتی ڈھونڈ رھا تھا اور کوئی لالٹین ، خیر اچھے دنوں کی یاد کیلئے کبھی کبھی ایسا بھی ہونا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن