اے وطن جب تو نے پکارا!

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد تحریک پاکستان زور پکڑ گئی اور پاکستان ایک حقیقت نظر آنے لگا۔ اس دور میں انڈین وزارت دفاع کا سیکرٹری ایک کٹر، متعصب اور پاکستان دشمن شخص سر چند ولال تر یودی نامی ہندو تھا۔ یہ شخص بہت ذہین، شاطر اور با اثر انسان تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے اس کے ذاتی تعلقات تھے۔
 لارڈ ماؤنٹ بیٹن فخر سے بتایا کرتے تھے کہ پورے ہندوستان میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو’’ وار منسٹری ‘‘کا کام سمجھتا ہے اور وہ ہے سر چند ولال تر یودی۔ اس شخص نے بہت عیاری سے کام لیتے ہوئے متوقع پاکستانی علاقے میں واقع اسلحہ ڈپوز سے اسلحہ اور فوجی ساز و سامان بھارتی علاقے میں منتقل کر دیا۔ مسلمان یونٹیں ملایا۔ سنگا پور اور جنوبی ہندوستان میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ جولائی کے آخر میں محض چند نا مکمل مسلمان یونٹیں موجودہ مغربی پاکستان میں موجود تھیں۔
اگست کے پہلے ہفتے مہاجرین کے قافلے پاکستان سے بھارت اور بھارت سے پاکستان آنا شروع ہو گئے۔ یہاں زیادہ تر سرکاری ملازمین بشمول آفیسر ز ہندو اور سکھ تھے جو چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ ان لوگوں کی یوں اچانک روانگی سے حکومتی اور غیر حکومتی دفاتر خالی ہو گئے اور انتظامی مشینری یکدم بے اثر اور ناکارہ ہوگئی۔ سب سے زیادہ پولیس متاثر ہوئی جس میں زیادہ تر سکھ تھے جن کے جانے سے امن و امان بالکل تباہ ہو گیا۔ ہر طرف لوٹ مار قتل و غارت، خواتین کی عصمت دری اور اغوا شروع ہو گئے۔ یہ حالات اپنی جگہ لیکن تکلیف دہ امر یہ تھا کہ بھارت سے مسلمان مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے آنا شروع ہو گئے۔ 
ہر قافلہ بہت کچھ رستے میں لٹا کر پہنچتا۔ عزتیں، جانیں، مال وغیرہ سب کچھ لٹ جاتا۔ کوئی قافلہ آدھا آپہنچا‘ کوئی تیسرا حصہ اور کسی کے محض چند لوگ، ہر قافلہ قتل و غارت، لوٹ مار اور عزتوں کی پامالی کی نئی داستان لیکر آتا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک فعال اور مستعد حکومتی مشینری اور منظم پولیس کی سخت ضرورت تھی اور یہ دونوں چیزیں بدقسمتی سے موجود نہ تھیں۔ 
بھارت سے آنے والے مہاجرین بہت سی امیدیں لیکر اور سب کچھ قربان کر کے یہاں پہنچ رہے تھے۔ ان لوگوں کیلئے فوری طور پر رہائش، خوراک طبی امداد اور مکمل دیکھ بھال کی سخت ضرورت تھی۔ پھر ان قافلوں کے اس طرح یہاں پہنچنے سے یہاں کی مقامی آبادی میں شدید رد عمل ہوا جس سے سکھوں اور ہندوؤں کی قتل و غارت روکنا نا ممکن ہو گئی۔ ایسی صورت حال کسی طور پاکستان کے حق میں نہ تھی۔ جسدن خون میں لت پت لاشوں سے بھری مہاجر ٹرین لاہور پہنچی تو عوام کا شدید رد عمل سامنے آیا۔ پورے ملک میں خونی فسادات زور پکڑ گئے۔ 
بھارت اور پاکستان دونوں جگہوں پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور بدلہ لینے کا جنون زور پکڑ گیا۔ پورا ملک خون میں ڈوبتا نظر آیا۔ کوئی سنبھالنے والا یا کوئی آنسو پونچھنے والا نہ تھا۔ سب زخم لگانے اور خون بہانے والے تھے۔ پیشتر اس کے کہ خدا نخواستہ پاکستان اس آگ میں جل جاتا فوج سے مدد کی اپیل کی گئی اور فوج نے آکر سب کچھ سنبھالا۔ بچی کھچی حکومتی مشینری کو منظم کیا۔ مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی۔ ان سب کے ساتھ ملکر مہاجرین کی رہائش، خوراک طبی امداد اور مکمل دیکھ بھال یقینی بنائی، مہاجرین کیلئے ریلوے سٹیشنوں اور واہگہ بارڈر پر استقبالی کیمپ لگائے۔ بھارت جانے والے قافلوں کی حفاظت کا بندو بست کیا۔ عوام کے ساتھ ملکر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔ مہاجرین کی بحالی تک فوج نے ان کی مکمل دیکھ بھال کی اور ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی۔
………………… (جاری)

ای پیپر دی نیشن