اہل غور کے ’پاسبان جمہوریت‘ اور اہل فکر کے ’نشان جمہوریت‘ جناب مجید نظامی نے ’گو امریکہ! گو!‘ کا نعرہ کیا؟ سر کیا کہ کچھ ’اہل غور و فکر‘ کی سٹی ہی گم ہو گئی! ’ہمارا کیا بنے گا؟‘
جناب نواز شریف نے ’میں کاسہ توڑ ڈالوں گا!‘ کا نعرہ بلند کیا تو پاکستان کے تمام معیشت دانوں میں کھلبلی مچ گئی! ’ہمارا کیا بنے گا؟‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ دنیا بھر کی معیشت کے ٹھیکہ دار اداروں کے نمائندے بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور جناب نواز شریف کے ’ترلے‘ لے رہے ہیں‘ ’بادشاہو! خدا کے واسطے یہ ’ظلم‘ نہ کرنا!‘ تو ان کی سانسوں میں سانس اور دم میں دم آیا! مگر جناب پرویز مشرف یہ ’بغاوت‘ معاف کرنے کیلئے تیار نہ تھے!
سو‘ جناب محمد شریف‘ جناب نواز شریف‘ جناب شہباز شریف‘ تمام اہل خانہ کے ساتھ ’سرور پیلس‘ پہنچا دئیے گئے! محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے ہی وطن سے باہر تھیں! گلیاں سنجیاں ہو گئیں اور مرزا یار کے چلنے پھرنے کیلئے مواقع ہی مواقع پیدا ہو چکے تھے! لہٰذا آٹھ برس تک قوم جناب پرویز مشرف کے ’سیر سپاٹے‘ کے مناظر دیکھتے دیکھتے ان حالوں کو پہنچ گئی کہ ڈاکٹر عاصم‘ جناب نوید قمر اور جناب شوکت ترین کیلئے راستہ ہموار ہو گیا! یہ تینوں حضرات باری باری بولتے ہیں‘ مگر چپ ایک ساتھ سادھ لیتے ہیں! نوید قمر گیس فیلڈ کے دام کھرے کرنے نکلے مگر ’ناکام‘ ہو کر خاموش ہو گئے! اب ڈاکٹر عاصم بولے اور ملک کیلئے ’گیس لوڈشیڈنگ‘ کی نوید سنا کر ایسی چپ سادھی کہ تینوں چہرے بیک وقت ’سلور سکرین‘ سے غائب ہو گئے! اب صرف جناب پرویز مشرف اور جناب پرویز اشرف باقی بچے ہیں اور باری باری بول کر عوام کا ’دل‘ بہلا اور ذرائع ابلاغ کی ’جیبیں‘ پھیلا رہے ہیں!
جناب آصف علی زرداری جناب پرویز مشرف کو بہلاتے پھسلاتے باتوں میں لگائے صدارتی محل کے دروازے تک لائے اور ان کے قدم باہر رکھتے ہی دروازہ یوں بھیڑ لیا کہ جناب پرویز مشرف کا الوداعی آوازہ ان تک نہ پہنچ پایا!
اب ’جبکہ ’کارستان پاکستان‘ مکمل طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کارخانے میں وہی کچھ بن رہا ہے‘ جسے بنانے کا آرڈر ’صدارتی محل‘ سے پلیس کیا جا رہا ہے! تو ہمیں یاد آرہا ہے کہ ’پلیس‘ اور ’پیلس‘ دونوں الفاظ ’جگہ‘ مقام‘ اور ’گھر‘ کے معانی میں استعمال کئے جاتا ہے! ’پیلس‘ ’کنگز پلیس‘ ہے میاں نواز شریف اس کے معنی جانتے ہیں حالانکہ وہ صرف جدہ کے سرور پیلس میں بطور جلاوطن رہے‘
سو‘ مقام عبرت ہے کہ پاکستان میں ’تھینک یو امریکہ‘ کا نعرہ بلند ہونے کے بعد اب ’تھینک یو امریکہ! یو مے گو! کی بات شروع ہو گئی ہے اور یہ بات کسی اور کے نہیں‘ ہمارے ’نشان جمہوریت‘ کے ’کُنج لب‘ سے ’صبح نو آغاز‘ کی طرح پھوٹی ہے!
بات چل نکلی ہے! اب دیکھیں کہاں تک پہنچے؟
اپنے خیالوں کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ الفاظ بن جاتے ہیں!
اپنے الفاظ کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ اعمال میں ڈھل جاتے ہیں!
اپنے اعمال کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ کردار میں ڈھل جاتے ہیں!
اپنے کردار کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ ’پہچان‘ قرار پا جاتا ہے!
امریکہ۔ پاکستان دوستی دو آزاد ریاستوں اور ان کے عوام کے درمیان باہمی اعتبار‘ باہمی اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہوئی مگر ہم اعتبار کھوتے‘ اعتماد سے عاری ہوتے ہوتے احترام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور محض ’کاسہ لیس‘ بن کے رہ گئے! ضرورت اسی امرکی ہے کہ گو امریکہ! گو! کا نعرہ اتنی بلند آواز میں سر ہو کہ امریکہ اسی ڈگر پر واپس آ جائے‘ جس ڈگر پر‘ وہ 1947ء ۔۔ 1957ء تک کارفرما رہا!
سات اکتوبر 1958ء اور بارہ اکتوبر 1999ء ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں‘ سات اکتوبر 1958ء کا دن 16 دسمبر 1971ء کی رات لے کر آیا‘ بارہ اکتوبر 1999ء کی رات ابھی تک کاٹے نہیں کٹ رہی! بہت کچھ نہیں رہا مگر ’آثار‘ باقی ہیں! ہمیں یقین واثق ہے کہ وہ دن ضرور طلوع ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہوں گے کہ ہمیں قائداعظمؒ کا پاکستان واپس مل گیا! جوہری‘ جمہوری اور سربلند پاکستان کا خواب تعبیر آشنا ہو کر رہے گا! انشاء اللہ! اور وہ دن ہمارے نشان جمہوریت جناب مجید نظامی کی شادکامی اور شادمانی کا دن ہو گا کہ ان کی کامرانی سولہ کروڑ عوام کی کامرانی ہو گی!
بقول زعیم
بوندیں گریں تو آنکھ میں آنسو بھی آگئے
بارش سے اس کی یاد کا رشتہ ضرور ہے
نشان جمہوریت جناب مجید نظامی کا لب و لہجہ ہمیں قائداعظمؒ محمد علی جناح کی پرعزم آواز یاد دلا جاتا ہے!
جناب نواز شریف نے ’میں کاسہ توڑ ڈالوں گا!‘ کا نعرہ بلند کیا تو پاکستان کے تمام معیشت دانوں میں کھلبلی مچ گئی! ’ہمارا کیا بنے گا؟‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ دنیا بھر کی معیشت کے ٹھیکہ دار اداروں کے نمائندے بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور جناب نواز شریف کے ’ترلے‘ لے رہے ہیں‘ ’بادشاہو! خدا کے واسطے یہ ’ظلم‘ نہ کرنا!‘ تو ان کی سانسوں میں سانس اور دم میں دم آیا! مگر جناب پرویز مشرف یہ ’بغاوت‘ معاف کرنے کیلئے تیار نہ تھے!
سو‘ جناب محمد شریف‘ جناب نواز شریف‘ جناب شہباز شریف‘ تمام اہل خانہ کے ساتھ ’سرور پیلس‘ پہنچا دئیے گئے! محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے ہی وطن سے باہر تھیں! گلیاں سنجیاں ہو گئیں اور مرزا یار کے چلنے پھرنے کیلئے مواقع ہی مواقع پیدا ہو چکے تھے! لہٰذا آٹھ برس تک قوم جناب پرویز مشرف کے ’سیر سپاٹے‘ کے مناظر دیکھتے دیکھتے ان حالوں کو پہنچ گئی کہ ڈاکٹر عاصم‘ جناب نوید قمر اور جناب شوکت ترین کیلئے راستہ ہموار ہو گیا! یہ تینوں حضرات باری باری بولتے ہیں‘ مگر چپ ایک ساتھ سادھ لیتے ہیں! نوید قمر گیس فیلڈ کے دام کھرے کرنے نکلے مگر ’ناکام‘ ہو کر خاموش ہو گئے! اب ڈاکٹر عاصم بولے اور ملک کیلئے ’گیس لوڈشیڈنگ‘ کی نوید سنا کر ایسی چپ سادھی کہ تینوں چہرے بیک وقت ’سلور سکرین‘ سے غائب ہو گئے! اب صرف جناب پرویز مشرف اور جناب پرویز اشرف باقی بچے ہیں اور باری باری بول کر عوام کا ’دل‘ بہلا اور ذرائع ابلاغ کی ’جیبیں‘ پھیلا رہے ہیں!
جناب آصف علی زرداری جناب پرویز مشرف کو بہلاتے پھسلاتے باتوں میں لگائے صدارتی محل کے دروازے تک لائے اور ان کے قدم باہر رکھتے ہی دروازہ یوں بھیڑ لیا کہ جناب پرویز مشرف کا الوداعی آوازہ ان تک نہ پہنچ پایا!
اب ’جبکہ ’کارستان پاکستان‘ مکمل طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کارخانے میں وہی کچھ بن رہا ہے‘ جسے بنانے کا آرڈر ’صدارتی محل‘ سے پلیس کیا جا رہا ہے! تو ہمیں یاد آرہا ہے کہ ’پلیس‘ اور ’پیلس‘ دونوں الفاظ ’جگہ‘ مقام‘ اور ’گھر‘ کے معانی میں استعمال کئے جاتا ہے! ’پیلس‘ ’کنگز پلیس‘ ہے میاں نواز شریف اس کے معنی جانتے ہیں حالانکہ وہ صرف جدہ کے سرور پیلس میں بطور جلاوطن رہے‘
سو‘ مقام عبرت ہے کہ پاکستان میں ’تھینک یو امریکہ‘ کا نعرہ بلند ہونے کے بعد اب ’تھینک یو امریکہ! یو مے گو! کی بات شروع ہو گئی ہے اور یہ بات کسی اور کے نہیں‘ ہمارے ’نشان جمہوریت‘ کے ’کُنج لب‘ سے ’صبح نو آغاز‘ کی طرح پھوٹی ہے!
بات چل نکلی ہے! اب دیکھیں کہاں تک پہنچے؟
اپنے خیالوں کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ الفاظ بن جاتے ہیں!
اپنے الفاظ کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ اعمال میں ڈھل جاتے ہیں!
اپنے اعمال کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ کردار میں ڈھل جاتے ہیں!
اپنے کردار کی حفاظت کرو! کیونکہ یہ ’پہچان‘ قرار پا جاتا ہے!
امریکہ۔ پاکستان دوستی دو آزاد ریاستوں اور ان کے عوام کے درمیان باہمی اعتبار‘ باہمی اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہوئی مگر ہم اعتبار کھوتے‘ اعتماد سے عاری ہوتے ہوتے احترام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور محض ’کاسہ لیس‘ بن کے رہ گئے! ضرورت اسی امرکی ہے کہ گو امریکہ! گو! کا نعرہ اتنی بلند آواز میں سر ہو کہ امریکہ اسی ڈگر پر واپس آ جائے‘ جس ڈگر پر‘ وہ 1947ء ۔۔ 1957ء تک کارفرما رہا!
سات اکتوبر 1958ء اور بارہ اکتوبر 1999ء ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں‘ سات اکتوبر 1958ء کا دن 16 دسمبر 1971ء کی رات لے کر آیا‘ بارہ اکتوبر 1999ء کی رات ابھی تک کاٹے نہیں کٹ رہی! بہت کچھ نہیں رہا مگر ’آثار‘ باقی ہیں! ہمیں یقین واثق ہے کہ وہ دن ضرور طلوع ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہوں گے کہ ہمیں قائداعظمؒ کا پاکستان واپس مل گیا! جوہری‘ جمہوری اور سربلند پاکستان کا خواب تعبیر آشنا ہو کر رہے گا! انشاء اللہ! اور وہ دن ہمارے نشان جمہوریت جناب مجید نظامی کی شادکامی اور شادمانی کا دن ہو گا کہ ان کی کامرانی سولہ کروڑ عوام کی کامرانی ہو گی!
بقول زعیم
بوندیں گریں تو آنکھ میں آنسو بھی آگئے
بارش سے اس کی یاد کا رشتہ ضرور ہے
نشان جمہوریت جناب مجید نظامی کا لب و لہجہ ہمیں قائداعظمؒ محمد علی جناح کی پرعزم آواز یاد دلا جاتا ہے!