پچھلے دنوں بعض دوستوں نے میڈیا میں رپورٹ کیا کہ وزیراعلی پنجاب بلڈ کینسر میں مبتلا ہو کر بغرض علاج برطاینہ چلے گئے ہیں۔ خیر اس احمقانہ رپورٹنگ کی قلعی تو دوسرے دن ہی کھل گئی تھی مگر وزیراعلی شہباز شریف کو ہم نے آج جس حال میں دیکھا وہ ان احباب کیلئے یقیناً مایوسی کا باعث ہو گا جو انہیں بیمار دیکھنے کی خواہش موہوم دل میں لئے ’’اچھے وقتوں‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔
آج صبح طویل دورانیئے کی ایک انتہائی خوشگوار ملاقات میں ہم نے شہباز شریف کو ایک انتہائی سرخ و سفید‘ تندرست و توانا اور زندگی سے بھرپور شخص کے روپ میں دیکھا اور پھر دیکھتے ہی رہ گئے۔ ماشااللہ کہا اور لمحے بھر کے لئے سیدنا پرویز مشرف مدظلہ کے چند ارشادات گرامی کو یاد کیا جو موصوف ان دونوں بھائیوں کیلئے اکثر فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’تم دیکھ لینا‘ یہ دونوں اس وقت تک پاکستان واپس نہیں آ سکیں گے جب تک میں نہیں چاہوں گا‘‘ مشرف کی یہ بات آج اس وجہ سے زیادہ مخولیہ لگتی ہے کہ وہ خود باہر بیٹھا زندگی کو دھکا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا ہوا میں وقت بے وقت لہراتا مکا اب اس کے ڈرائنگ روم تک ہی محدود ہو چکا ہے۔
وزیراعلی پنجاب کے ساتھ ہونے والی اس انتہائی یادگار گپ شپ میں ویسے تو بیسیوں باتیں زیر بحث آئیں مگر ہمارے لئے ذاتی تقویت کا سب سے بڑا وسیلہ ایک کھرب 36 ارب روپے مالیت کے مختلف پراجیکٹس کی تفصیل تھی جو جنوبی پنجاب میں شروع ہو چکے ہیں ان پراجیکٹس کی تفصیل جان کر ہمیں اتنا یقین ضرور ہو چلا ہے کہ اگر اس رقم کا پچاس فیصد بھی مجوزہ علاقوں پر صرف ہو جائے تو ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور‘ لیہ‘ لودھراں اور وہاڑی جیسے پسماندہ اضلاع کی تقدیر بدل جائے گی۔ ویسے بہاولپور اور چولستان کے حالات میں بہتری تو ہم ابھی سے آتی دیکھ رہے ہیں۔
آج کی ملاقات میں دوسری بات یہ سننے کو ملی کہ وزیراعلی نے اپنے صاحبزادے کی اس بنا پر کافی ’’جھاڑ جھمب‘‘ کی ہے کہ اس نے سائیبیریا سے ایک بیش قیمت شیر کیوں منگوایا کہ جس کے رہن سہن اور نگہداشت پر لاکھوں روپے ماہانہ کا خرچ اٹھتا ہے۔ چنانچہ خبر یہ ہے کہ شہباز شریف نے مذکورہ شیر کو ’’فارغ‘‘ کرنے کی ٹھان لی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جس دم آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے‘ یہ شیر سرحد حکومت کو بطور تحفہ روانہ کرنے کے انتظامات ہو چکے ہوں گے۔
شہباز شریف کے منہ سے ملنے والی تیسری اہم خبر یہ ہے کہ لاہور میں پنجاب رنگ کے عنوان سے ایک خوبصورت ’’تھیم پارک‘‘ قائم کیا جا رہا ہے جس میں چولستانی‘ سرائیکی‘ پوٹھوہاری‘ لاہوری‘ دوآبی‘ نیلی اور راوی تمدن کو اجاگر کرنے کیلئے انتہائی دلفریب ماحول پیدا کرکے انہی علاقوں کی مناسبت سے فوڈ پارکس‘ ہینڈی کرافٹ‘ لوک ورثہ اور تاریخی معاملات کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔ اس تھیم پارک کے بننے سے عین ممکن ہے کہ لوگ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ کی یاد بھلا دیں کیونکہ آخری خبریں آنے تک مذکورہ فوڈ سٹریٹ کو ختم کرکے اس کی اصلی حالت میں لایا جا چکا ہے۔ یعنی اب اس خوشگوار گوشہ خوراک کی جگہ رکشوں‘ ٹانگوں‘ کھوتا ریڑھیوں اور سکوٹروں کی عبرتناک آمدورفت نے لے لی ہے۔
اس توڑ پھوڑ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پرویزی دور حکومت میں صرف نواز شریف کے حلقہ انتخاب کو مفلوج کرنے کیلئے حلقے کے دل یعنی گوالمنڈی کے عین وسط میں فوڈ سٹریٹ کی پاکھنڈ بازی کر ڈالی گئی جس نے اہالیان علاقہ کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا‘ چونکہ مذکورہ سٹریٹ علاقے کی مین روڈ ہے‘ اس لئے آمدورفت کے مسائل بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوئے۔ باراتوں اور جنازوں کے رخ باامر مجبوری موڑ دیئے گئے۔ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں یہ فوڈ سٹریٹ بہت بڑا وبال جان بن گئی۔ علاقے میں حکومتی رعب داب قائم رکھنے اور دلوں پر پرویزی دور کی دھاک بٹھانے کے لئے چند نامی گرامی بدمعاشوں کی خدمات حاصل کر لی گئیں اور یوں یہ سلسلہ پورے نو سال جاری رہا۔
تاہم دوسری طرف کا موقف کافی مختلف ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ فوڈ سٹریٹ قائم ہونے سے ہماری جائیدادوں کی قدرومنزلت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ وہ ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ اور بدبودار گھر جنہیں کوئی مفت لینے کو بھی تیار نہیں تھا‘ کروڑوں میں بکنے لگے۔ ٹریفک بہر صورت چلتی رہی اور جنازے بھی بدستور نکلتے رہے۔ صرف متبادل روٹ بنا دیئے گئے جہاں تجاوزات ختم کرکے سڑکیں نہایت وسیع و عریض کر دی گئیں۔ اور یہ کہ موجودہ حکومت چونکہ پرویزی دور کا نام و نشان تک مٹانے پر تلی ہوئی ہے اس لئے رنگ برنگی تاویلیں نکالتی اور بہانے ڈھالتی نظر آتی ہے‘ وغیرہ‘ وغیرہ۔
حقیقت کیا ہے‘ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ اگر مجوزہ ’’تھیم پارک‘‘ اپنے اندر پنجاب کے سارے رنگ لئے جلوہ افروز ہوتا ہے تو پھر فوڈ سٹریٹ کو فراموش تو کیا جا سکتا ہے مگر آہستہ آہستہ۔ فوری طور پر اس لئے ممکن نہیں کہ مذکورہ سٹریٹ لاہور کے رنگوں میں ایک دلفریب اضافہ تھا یہ بھولتے بھولتے ہی بھولے گی۔ چنانچہ شہباز شریف کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ ظفر اقبال کا یہ شعر تھا تو کسی اور مقصد کیلئے مگر ہم اس کی بے حرمتی فوڈ سٹریٹ کے تناظر میں کرنے جا رہے ہیں…؎
ظفر دل سے نکل تو جائیں گے ہم
بہت یاد آئے گا یہ گھر پرانا !
آج صبح طویل دورانیئے کی ایک انتہائی خوشگوار ملاقات میں ہم نے شہباز شریف کو ایک انتہائی سرخ و سفید‘ تندرست و توانا اور زندگی سے بھرپور شخص کے روپ میں دیکھا اور پھر دیکھتے ہی رہ گئے۔ ماشااللہ کہا اور لمحے بھر کے لئے سیدنا پرویز مشرف مدظلہ کے چند ارشادات گرامی کو یاد کیا جو موصوف ان دونوں بھائیوں کیلئے اکثر فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’تم دیکھ لینا‘ یہ دونوں اس وقت تک پاکستان واپس نہیں آ سکیں گے جب تک میں نہیں چاہوں گا‘‘ مشرف کی یہ بات آج اس وجہ سے زیادہ مخولیہ لگتی ہے کہ وہ خود باہر بیٹھا زندگی کو دھکا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا ہوا میں وقت بے وقت لہراتا مکا اب اس کے ڈرائنگ روم تک ہی محدود ہو چکا ہے۔
وزیراعلی پنجاب کے ساتھ ہونے والی اس انتہائی یادگار گپ شپ میں ویسے تو بیسیوں باتیں زیر بحث آئیں مگر ہمارے لئے ذاتی تقویت کا سب سے بڑا وسیلہ ایک کھرب 36 ارب روپے مالیت کے مختلف پراجیکٹس کی تفصیل تھی جو جنوبی پنجاب میں شروع ہو چکے ہیں ان پراجیکٹس کی تفصیل جان کر ہمیں اتنا یقین ضرور ہو چلا ہے کہ اگر اس رقم کا پچاس فیصد بھی مجوزہ علاقوں پر صرف ہو جائے تو ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور‘ لیہ‘ لودھراں اور وہاڑی جیسے پسماندہ اضلاع کی تقدیر بدل جائے گی۔ ویسے بہاولپور اور چولستان کے حالات میں بہتری تو ہم ابھی سے آتی دیکھ رہے ہیں۔
آج کی ملاقات میں دوسری بات یہ سننے کو ملی کہ وزیراعلی نے اپنے صاحبزادے کی اس بنا پر کافی ’’جھاڑ جھمب‘‘ کی ہے کہ اس نے سائیبیریا سے ایک بیش قیمت شیر کیوں منگوایا کہ جس کے رہن سہن اور نگہداشت پر لاکھوں روپے ماہانہ کا خرچ اٹھتا ہے۔ چنانچہ خبر یہ ہے کہ شہباز شریف نے مذکورہ شیر کو ’’فارغ‘‘ کرنے کی ٹھان لی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جس دم آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے‘ یہ شیر سرحد حکومت کو بطور تحفہ روانہ کرنے کے انتظامات ہو چکے ہوں گے۔
شہباز شریف کے منہ سے ملنے والی تیسری اہم خبر یہ ہے کہ لاہور میں پنجاب رنگ کے عنوان سے ایک خوبصورت ’’تھیم پارک‘‘ قائم کیا جا رہا ہے جس میں چولستانی‘ سرائیکی‘ پوٹھوہاری‘ لاہوری‘ دوآبی‘ نیلی اور راوی تمدن کو اجاگر کرنے کیلئے انتہائی دلفریب ماحول پیدا کرکے انہی علاقوں کی مناسبت سے فوڈ پارکس‘ ہینڈی کرافٹ‘ لوک ورثہ اور تاریخی معاملات کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔ اس تھیم پارک کے بننے سے عین ممکن ہے کہ لوگ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ کی یاد بھلا دیں کیونکہ آخری خبریں آنے تک مذکورہ فوڈ سٹریٹ کو ختم کرکے اس کی اصلی حالت میں لایا جا چکا ہے۔ یعنی اب اس خوشگوار گوشہ خوراک کی جگہ رکشوں‘ ٹانگوں‘ کھوتا ریڑھیوں اور سکوٹروں کی عبرتناک آمدورفت نے لے لی ہے۔
اس توڑ پھوڑ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پرویزی دور حکومت میں صرف نواز شریف کے حلقہ انتخاب کو مفلوج کرنے کیلئے حلقے کے دل یعنی گوالمنڈی کے عین وسط میں فوڈ سٹریٹ کی پاکھنڈ بازی کر ڈالی گئی جس نے اہالیان علاقہ کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا‘ چونکہ مذکورہ سٹریٹ علاقے کی مین روڈ ہے‘ اس لئے آمدورفت کے مسائل بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوئے۔ باراتوں اور جنازوں کے رخ باامر مجبوری موڑ دیئے گئے۔ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں یہ فوڈ سٹریٹ بہت بڑا وبال جان بن گئی۔ علاقے میں حکومتی رعب داب قائم رکھنے اور دلوں پر پرویزی دور کی دھاک بٹھانے کے لئے چند نامی گرامی بدمعاشوں کی خدمات حاصل کر لی گئیں اور یوں یہ سلسلہ پورے نو سال جاری رہا۔
تاہم دوسری طرف کا موقف کافی مختلف ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ فوڈ سٹریٹ قائم ہونے سے ہماری جائیدادوں کی قدرومنزلت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ وہ ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ اور بدبودار گھر جنہیں کوئی مفت لینے کو بھی تیار نہیں تھا‘ کروڑوں میں بکنے لگے۔ ٹریفک بہر صورت چلتی رہی اور جنازے بھی بدستور نکلتے رہے۔ صرف متبادل روٹ بنا دیئے گئے جہاں تجاوزات ختم کرکے سڑکیں نہایت وسیع و عریض کر دی گئیں۔ اور یہ کہ موجودہ حکومت چونکہ پرویزی دور کا نام و نشان تک مٹانے پر تلی ہوئی ہے اس لئے رنگ برنگی تاویلیں نکالتی اور بہانے ڈھالتی نظر آتی ہے‘ وغیرہ‘ وغیرہ۔
حقیقت کیا ہے‘ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ اگر مجوزہ ’’تھیم پارک‘‘ اپنے اندر پنجاب کے سارے رنگ لئے جلوہ افروز ہوتا ہے تو پھر فوڈ سٹریٹ کو فراموش تو کیا جا سکتا ہے مگر آہستہ آہستہ۔ فوری طور پر اس لئے ممکن نہیں کہ مذکورہ سٹریٹ لاہور کے رنگوں میں ایک دلفریب اضافہ تھا یہ بھولتے بھولتے ہی بھولے گی۔ چنانچہ شہباز شریف کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ ظفر اقبال کا یہ شعر تھا تو کسی اور مقصد کیلئے مگر ہم اس کی بے حرمتی فوڈ سٹریٹ کے تناظر میں کرنے جا رہے ہیں…؎
ظفر دل سے نکل تو جائیں گے ہم
بہت یاد آئے گا یہ گھر پرانا !