(اختر علی مونگا)
ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ اُس کا ملک خودمختار ہو اور اُسکی Sovereignty کو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ مگر اس خواہش کا تو یہ عالم ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اس کےلئے قوم کو خودانحصاری کا سہارا لینا پڑے گا۔ یعنی معاشی طور پر آزاد ہونا ضروری ہے۔ موجودہ قرضے واپس کئے جائیں اور آئندہ قرضہ نہ لیا جائے اور اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے۔ ہمارے ایک دوست جو سیاست میں سرگرم رہے ہیں مگر اب موجودہ سیاستدانوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے سیاست سے تائب ہو گئے ہیں اور موجودہ تمام مسائل کی وجہ سیاست دانوں کو ہی گردانتے ہیں کا پکا خیال ہے کہ یہ لوگ اس قابل نہیں کہ معاشی پالیسی بنا لیں۔ خارجہ پالیسی وضع کر لیں۔ نہ تعلیم ہے، نہ تربیت اور نہ ہی نیک نیتی ہے۔ بہت سارا خرچہ کر کے الیکشن لڑ کے آتے ہیں اور ہر وقت جائز ناجائز طریقہ سے اُس خرچہ کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ویسے ہم اپنے دوست سے اتفاق نہیں کرتے۔سب سے خوش آئند بات ن لیگ کے لیڈران کرام کے بیانات ہیں کہ ہم آئندہ بھیک نہیں لیں گے اور یہ کہ ہمیں غیرملکی امداد قبول نہ ہے۔ یہ بات بیانات کی حد تک بہت ٹھیک ہے مگر ملکی حالات کے پیش نظر ایک پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔ پہلے بھی قرض اتارو ملک سنوارو سکیم چل چکی ہے۔ کشکول کو سب نے کئی دفعہ توڑا ہے۔ مگر وہ ٹوٹا نہیں بلکہ سائز میں زیادہ بڑا ہو گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ سکیم جتنی اچھی ہے اس پر عمل اُتنا ہی مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس کےلئے مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور مالی ماہرین ہی اس کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں۔ صرف نعروں سے کام نہیں بنے گا۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی اچھی حالت میں نہ تھی۔ اب اسامہ والے واقعہ کے بعد بہت خراب ہو گئی ہے۔ بہت سارے آرڈر منسوخ ہو گئے ہیں۔ برآمدات پر فوری اثر شروع ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل کا زیادہ حصہ امریکہ کو بھیجا جاتا ہے اور ٹیکسٹائل سے کروڑوں مزدور وابستہ ہیں۔ Investment فوری طور پر بند ہو گئی ہے۔ Budget Deficit پہلے ہی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ہم خود ہی گھر بیٹھے بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیں قرض دے گا کون؟ پہلے بھی کیری لوگر بل پر جب زیادہ بحث مباحثہ ہوا تو ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ اگر پاکستان قرضہ نہیں لینا چاہتا تو نہ لے۔ اب ہماری خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ ساری قوم اس بات پر متفق ہو جائے کہ ہم نے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ سب سیاستدان حکومتی ہوں یا اپوزیشن سے سب اپنے اکاﺅنٹ پاکستان میں لائیں۔ صحیح معنوں میں سادگی اپنائیں۔ تمام غیرضروری اخراجات بند کر دیں۔ تمام قرضے جات واپس کر دیں۔ اکٹھا کیا ہوا سارا مال واپس کر دیں۔ صحیح ٹیکس دیں۔حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کفایت شعاری کےلئے اُٹھائے گئے اقدامات بالکل ناکافی ہیں اور اُن سے مطلوبہ مقاصد ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔ غریب تو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اب تو اشرافیہ کو خدا کا خوف کرنا ہوگا۔ صرف انقلاب انقلاب کے نعرے لگانا بند کر دیں اور عملی اقدامات اُٹھائیں۔ جب تک انقلابی اقدامات کا اہتمام نہ کیا گیا۔ پاکستان قرضوں کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے گا اور کبھی بھی آزاد اور خودمختار ریاست نہیں بن سکتا۔
ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ اُس کا ملک خودمختار ہو اور اُسکی Sovereignty کو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ مگر اس خواہش کا تو یہ عالم ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اس کےلئے قوم کو خودانحصاری کا سہارا لینا پڑے گا۔ یعنی معاشی طور پر آزاد ہونا ضروری ہے۔ موجودہ قرضے واپس کئے جائیں اور آئندہ قرضہ نہ لیا جائے اور اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے۔ ہمارے ایک دوست جو سیاست میں سرگرم رہے ہیں مگر اب موجودہ سیاستدانوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے سیاست سے تائب ہو گئے ہیں اور موجودہ تمام مسائل کی وجہ سیاست دانوں کو ہی گردانتے ہیں کا پکا خیال ہے کہ یہ لوگ اس قابل نہیں کہ معاشی پالیسی بنا لیں۔ خارجہ پالیسی وضع کر لیں۔ نہ تعلیم ہے، نہ تربیت اور نہ ہی نیک نیتی ہے۔ بہت سارا خرچہ کر کے الیکشن لڑ کے آتے ہیں اور ہر وقت جائز ناجائز طریقہ سے اُس خرچہ کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ویسے ہم اپنے دوست سے اتفاق نہیں کرتے۔سب سے خوش آئند بات ن لیگ کے لیڈران کرام کے بیانات ہیں کہ ہم آئندہ بھیک نہیں لیں گے اور یہ کہ ہمیں غیرملکی امداد قبول نہ ہے۔ یہ بات بیانات کی حد تک بہت ٹھیک ہے مگر ملکی حالات کے پیش نظر ایک پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔ پہلے بھی قرض اتارو ملک سنوارو سکیم چل چکی ہے۔ کشکول کو سب نے کئی دفعہ توڑا ہے۔ مگر وہ ٹوٹا نہیں بلکہ سائز میں زیادہ بڑا ہو گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ سکیم جتنی اچھی ہے اس پر عمل اُتنا ہی مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس کےلئے مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور مالی ماہرین ہی اس کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں۔ صرف نعروں سے کام نہیں بنے گا۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی اچھی حالت میں نہ تھی۔ اب اسامہ والے واقعہ کے بعد بہت خراب ہو گئی ہے۔ بہت سارے آرڈر منسوخ ہو گئے ہیں۔ برآمدات پر فوری اثر شروع ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل کا زیادہ حصہ امریکہ کو بھیجا جاتا ہے اور ٹیکسٹائل سے کروڑوں مزدور وابستہ ہیں۔ Investment فوری طور پر بند ہو گئی ہے۔ Budget Deficit پہلے ہی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ہم خود ہی گھر بیٹھے بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیں قرض دے گا کون؟ پہلے بھی کیری لوگر بل پر جب زیادہ بحث مباحثہ ہوا تو ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ اگر پاکستان قرضہ نہیں لینا چاہتا تو نہ لے۔ اب ہماری خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ ساری قوم اس بات پر متفق ہو جائے کہ ہم نے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ سب سیاستدان حکومتی ہوں یا اپوزیشن سے سب اپنے اکاﺅنٹ پاکستان میں لائیں۔ صحیح معنوں میں سادگی اپنائیں۔ تمام غیرضروری اخراجات بند کر دیں۔ تمام قرضے جات واپس کر دیں۔ اکٹھا کیا ہوا سارا مال واپس کر دیں۔ صحیح ٹیکس دیں۔حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کفایت شعاری کےلئے اُٹھائے گئے اقدامات بالکل ناکافی ہیں اور اُن سے مطلوبہ مقاصد ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔ غریب تو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اب تو اشرافیہ کو خدا کا خوف کرنا ہوگا۔ صرف انقلاب انقلاب کے نعرے لگانا بند کر دیں اور عملی اقدامات اُٹھائیں۔ جب تک انقلابی اقدامات کا اہتمام نہ کیا گیا۔ پاکستان قرضوں کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے گا اور کبھی بھی آزاد اور خودمختار ریاست نہیں بن سکتا۔