مجید نظامی زندہ رہیں گے

Jul 29, 2014

خواجہ عبدالحکیم عامر

پیشہ¿ فحافت کو عبادت اور مشن کے طور پر اپنائے ہوئے ساتھیوں کی بد قسمتی ہے کہ ان سے ان کا آخری رہبر بھی چھن گیا۔ اہل وطن جان چکے پڑھ چکے کہ پاکستان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جاننے اور سمجھنے والا مجید نظامی آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں مگر میں یہ بات دعوے کے ساتھ بیان کر رہا ہوں کہ ان کا جلایا ہوا روشن چراغ نوائے وقت جب تک جل رہا ہے مجید نظامی کی مقدس روح اس چراغ کی حفاظت کرے گی اسے بجھنے نہ دے گی اور خالق سے اجازت لیکر وہ طاقت نرم و نازک بچی رمیزہ کو دلوائے گی جس کی ضرورت پل پل ہر ہر قدم پر پڑنے والی ہے اور وہ دن دور نہیں جب رمیزہ بیٹی پاکستان اور نظریہ پاکستان کے منحرفین کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہونگی۔ کون کہتا ہے کہ مجید نظامی مر گئے نہیں جناب وہ آج بھی زندہ ہیں۔ شاعر نے شائد ان کے لئے کہا تھا کہ۔
مر کر بھی نہیں مرتے تجھ جیسے قلندر
تو آج بھی زندہ ہے محمد کے ثناءگر
حضرت مجید نظامی کے ساتھ منسوب واقعات ان کی باتیں ان کی بہادری و جرا¿ت کے قصے برسوں تک لکھے جاتے رہیں گے۔ ان کی ذات سے وابستہ رہنے والا ہر دوست ہر ساتھی اپنے اپنے تعلق کی باتیں کر رہا ہے۔ انہیں مرشد صحافت کہنے والوں کی کمی نہیں آبروئے صحافت کہنے والے بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں مگر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی ذات کے بارے میں جو خطاب یا لقب میں نے استعمال کیا تھا آج زبان زد عام ہے اور وہ ہے”امام صحافت“ ادارہ نوائے وقت ہی نہیں پاکستان کا بچہ بچہ آج انہیں امام صحافت کے نام سے یاد کر رہا ہے مجید نظامی صاحب کو امام صحافت کا لقب خطاب ملنا بھی ایک یاد گار واقعہ ہے بیان کئے دیتا ہوں۔ کافی عرصہ پہلے میں نے کسی مسئلے پر رائے لینے کے لئے انہیں لیٹر لکھا جس میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے ”آسمان صحافت“ لکھ دیا، میرا لیٹر پڑھ کر انہوں نے جوابی فون کیا اور فرمایا انہیں کے الفاظ دھرا رہا ہوں۔” خواجہ صاحب! مجھے زمین پر ہی رہنے دیں“ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اماموں کو آسمان سے زیادہ بلند سمجھتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو ” امام صحافت“ کہہ لیا کروں“؟ نظامی صاحب خاموش رہے یعنی انہوں نے میری خواہش کو رد نہ کیا۔
مجید نظامی صاحب سے میرا تعلق بچپن سے ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب نظامی صاحب اپنے یار غار شورش کاشمیری کے گھر آیا کرتے تھے ۔ آغا صاحب سے ان کی دوستی اور قربت جناب حمید نظامی کی مرحون منت تھی۔ حمید نظامی صاحب کی وفات کے بعد جناب مجید نظامی نے بھائی کی دوستی کو جاری رکھا اور اکثر آغا صاحب کے گھر آیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ گول مٹول بچے کو کافی پیار کیا کرتے تھے۔ بچپن سے جوانی کی طرف جانے کے دوران میں ان کی شخصیت کے سحر میں پوری طرح ڈوب چکا ہوا تھا۔ ایک تو شورش کاشمیری کی مقناطیسی شخصیت نے مجھے ضرورت سے زیادہ متاثر کر رکھا ہوا تھا طرہ اس پر مجید نظامی صاحب کی شفقت نے مجھے عین جوانی میں ہی فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ میں بھی بڑا ہو کر صحافی بنوں گا حالانکہ میرے والد مرحوم خواجہ عبدالرشید مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر میرے اندر چھپی ہوئی خواہش کو میری والدہ سنجیدہ رشید نے پروان چڑھایا اور اس زمانہ طالب علمی میں میں صحافت کی سیڑھی پر چڑھ گیا۔ شورش کاشمیری کی آغوش اور تربیت تو مجھے میسر تھی ہی مگر مجید نظامی صاحب نے میرے شوق اور خواہش کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے مجھے نوائے وقت میں طالب علم کی ڈائری لکھنے کا مشورہ دیا یہ بات ہے غالباً 73/74کی میں نے نظامی صاحب کے حکم اور اجازت سے طالب علم کی ڈائری لکھنا شروع کی۔
میں نے عمر کا بیشتر حصہ بنک کی نوکری کرتے ہوئے گزارا ہے مگر صحافت کے ساتھ رشتہ نہیں ٹوٹنے دیا۔ بنک میں ریٹائر منٹ لینے کے بعد میں نے مجید نظامی صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اب نوائے وقت میں با قاعدہ جاب کروں انہوں نے نہ صرف مجھے سنڈے میگزین میں جاب دیدی بلکہ میرے بیٹے علی کو بھی نوائے وقت کی آغوش میں بیٹھا لیا۔ میں نے نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں رہ کر اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی بھر پور کوشش کی بالآخر ایک بیماری نے مجھے نوائے وقت کی نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا فوراً بعد ہی میرے بیٹے کو ایک بنک میں جاب مل گئی اور وہ بھی نوائے وقت کی قیمتی نوکری چھوڑ آیا۔ مجھے احساس نہ ہوا کہ ہم باپ بیٹے کس اس حرکت کا نظامی صاحب نے برا منایا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہونے والی ایک ملاقات کے دوران انہوں نے شکوے کا اظہار بھی ان الفاظ میں کر دیا۔ ”تم باپ بیٹا بے وفا نکلے“ میں نے انہی وجوہات سے آگاہ کیا تو مطمئن ہوئے اور مجھے کالم جاری رکھنے کا حکم دیا۔ وہ دن اور آج دن ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہفتے میں ایک کالم ” سچ ہی لکھتے جانا“ تحریر کررہا ہوں۔
بیٹی رمیزہ نظامی اس ضمن میں خوش نصیب ہیں کہ ان کے والد محترم مختصر عرصہ ہی میں صحافت کے تمام ضروری اسراراور دفتری معاملات سے انہیں آشنا کروا چکے ہوئے ہیں اسی لئے امید کی جاتی ہے کہ وہ دفتری سیاست چلانے میں زیادہ وقت محسوس نہیں کرینگی ویسے بھی تو لاکھوں کروڑوں دعائیں رمیزہ بیٹی کے ساتھ ہیں جو انہیں ڈگمگانے نہیں دیں گی۔ انشاءاللہ
آیئے اجتماعی دعا کریں کہ ” یا اللہ ! امام صحافت مجید نظامی کی خوشبو رمیزہ نظامی کی مدد کرنا“ (آمین)

مزیدخبریں