فجر کی نماز کے بعد‘ صبح سویرے جب ہمیں محب پاکستان جناب مجید نظامی کی رحلت کی خبر ملی‘ تو ہم ایک دم سکتے میں آ گئے‘ کہ یہ کیا ہو گیا؟ پھر خیال آیا‘ کہ مرنا تو ایک روز سب کو ہوتا ہے لیکن پاکستان کی محبت میں لمحہ لمحہ جینے والا‘ پاکستان کا یہ بطل جلیل مرا بھی تو اس روز‘ جو وطن عزیز پاکستان کا جنم دن ہے۔ یعنی پاکستان بھی ماہ مقدس رمضان کی ستائیسویں کو معرض وجود میں آیا تھا۔ تو جناب مجید نظامی نے بھی اب اپنی رحلت کے لئے رمضان کی ستائیسویں کا انتخاب کیا یہ اہل ایمان کو یہ دن مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے‘ یہ بڑے نصیب کی بات ہے لیکن انہیں الوداع کہنے پر ہم ان دیکھے دکھ اور اضطراب میں بھی مبتلا ہو گئے۔ تو اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ہم اپنے عقیدتوں کے من مندر میں‘ اس بت کو سجاتے‘ زندگی بھر پوجتے رہے۔ انہی سوچوں میں گم‘ ہم ماضی کے دھندلکوں میں دور تک نکل گئے اور یاد آیا‘ کہ ہم نے جب سے اخبار پڑھنے کا شعور حاصل کیا روزنامہ نوائے وقت کو ہی اپنے سامنے پایا کہ یہی اخبار ہمارے اور ہمارے عزیز و اقارب کے گھروں میں پڑھا جاتا تھا۔ تو ہمیں یہ بھی اچھی طرح یاد تھے کہ ایوب خان کے زمانے میں جب سرکاری دفتروں میں نوائے وقت کا داخلہ ممنوع تھا تو ہمارے دفتر میں اس وقت بھی نوائے وقت آیا کرتا تھا اور ہم سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود نہ صرف نوائے وقت پڑھا کرتے تھے‘ وقتاً فوقتاً اس میں لکھا کرتے تھے۔ اس پر ایک آدھ دفعہ ہماری جواب طلبی بھی ہوئی لیکن نوائے وقت سے ہمارا یہ رشتہ کسی طور ٹوٹ نہ پایا۔ اور یوں نوائے وقت سے یہ وابستگی‘ ہماری زندگی کا حصہ بن گئی اور حالت یہ ہو گئی کہ کسی روز‘ کسی وجہ سے اس کا مطالعہ نہ ہو سکا۔ تو ایسے لگا‘ جیسے کچھ کھو سا گیا ہو‘ یا روز مرہ کی معمولات میں کچھ کمی آ گئی ہو۔ اس عالم دلداری اور دلنوازی میں نوائے وقت کے تمام خانوادے سے تعلق خاطر کا استوار ہونا ایک فطری امر تھا ان کے غم اور خوشیاں اپنی لگنے لگیں۔ یہ بھی ایک دنیا جانتی ہے کہ اسی خانوادے کے ایک مرد حق شناس جناب حمید نظامی نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی ہدائت پر‘ تحریک پاکستان کو تقویت پہنچانے کے لئے اس اخبار کا اجراءکیا اور پھر اسے صحافت کی ان بلندیوں تک پہنچایا کہ یہ پاکستان کی شناخت ہی نہیں‘ اس کے لئے جنون اور عشق کا استعارہ بن کر جگمگانے لگا اور آج تک اسی نسبت سے دنیائے صحافت میں جانا اور پہچانا جاتا ہے اس دوران اس اخبار اور اس کے ادارے کو کٹھن مشکلات اور رکاوٹوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن اس کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لرزش نہ آئی۔ جناب حمید نظامی کی بے وقت موت نے نوائے وقت کے وجود تک کو ہلا کے رکھ دیا اور بدخواہوں کا خیال تھا کہ یہ اس صورت میں یہ زندہ بھی نہیں رہ سکے گا لیکن حمید نظامی کے انتقال کے بعد ان کے بھائی جناب مجید نظامی نے یہ ذمہ داریاں سنبھالیں تو اس کے تن نیم جاں میں وہ توانائیاں بھر دیں کہ یہ پوری استقامت اور کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے سے آگے جاری و ساری رہا اور پھر اسے اس مقام پرپہنچا دیا کہ تکریم و تعظیم کے لحاظ سے یہ ملک بھر کے اخباروں میں سب سے آگے سمجھاجانے لگا اور ایسا یہ کچھ جناب مجید نظامی کے پاکستان سے والہانہ محبت اور نظریہ پاکستان سے بے پناہ لگاﺅ کی بدولت ہی ہو سکا۔ سچ تو یہ ہے کہ نوائے وقت کی صورت میں‘ جناب حمید نظامی نے صحافت میں صداقت اور پاکستان سے والہانہ عشق کا یہ پودہ لگایا‘ جسے جناب مجید نظامی نے پروان چڑھا کر تناور درخت بنایا اور دنیائے صحافت میں اپنے کردار اور اعمال سے وہ جگہ بنا لی‘ جو صدیوں بعد کسی صحافی کو نصیب ہو سکے گی۔ یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ نوائے وقت سے اس قدر تعلق اور لگاﺅ رکھنے کے باوجود ہماری جناب مجید نظامی سے گنتی کی چند ملاقاتیں ہی ہوسکیں تو اس کی وجہ یہی ٹھہری کہ ہم ان کی شخصیت سے اس قدر مرعوب رہے کہ انکے سامنے آنے سے ایسے ہی گریزاں رہے‘ جسے کوئی کمزور دل انسان کسی با رعب شخص کے سامنے آنے سے گریز کرتا ہے ہم سمجھتے تھے‘ جس شخص کا ایمان ہی جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنا ہو وہ کس قدر بارعُب اور تند خُو ہو گا۔ لیکن ان سے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ یا اس کے بعد جب کبھی ملنا ہوا‘ انہیں اس قدر ‘ شفیق و خلیق ‘ نرم خو اور نرم دل پایا‘ کہ سارے وسوسے اور خدشات ایک دم سے کافور ہو گئے دھیما انداز گفتگو اور ہشاش بشاش چہرے پر ہمہ وقت سکون اور طمانیت دیکھ کر ایسے لگا‘ جیسے اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم ہے کہ عمر کے اس حصے میں بھی وہ سراپا ترو تازہ اور چاک چوبند نظر آئے اور یوں ان کے چہرے پر ہر وقت ایک خاص قسم کے نور کا ہالہ دیکھا۔