شمالی وزیرستان کے متاثرین کی بے سروسامانی میں ”عید“

Jul 29, 2014

ایم ریاض
ملک کے دیگر علاقوںکے مقابلہ میں خیبر پی کے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں ایک روز پہلے چاند دیکھ لینے کی روایت ہے، جس کے اعلان کے ساتھ ہی خوشیاں منانے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ صوبہ بھر میں اور بالخصوص قبائلی علاقوں میںشوال یا عیدالفطرکا چاند نظر آنے پر خوشی کے اظہار کا ایک بڑا ذریعہ اندھا دھند ہوائی فائرنگ ہے۔ نماز مغرب کے فور اً بعد چارسُو کلاشنکوفوں اور بعض اوقات بھاری مشین گنوںکی تڑتڑاہٹ کی گونج سے عیدالفطر کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے کی خوشی میں پٹاخوں کی تڑ تڑاہٹ کا یہ انداز صدیوں سے سے چھوٹے بڑے شہروں اور قبائلی علاقوںکی میں رائج ہے۔ پاک افغان سرحد پر واقع بہادر وزیر اور دواڑ قبائل کا علاقہ وزیرستان اگر ایک طرف جیو پولیٹیکل حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری طرف یہاںکے لوگوں میں تعلیم اور کاروبار کے بڑھتے رجحانات کی وجہ سے یہاںکے باسیوںکی معاشی حالت نسبتاً مستحکم تھی۔ جس کی ایک وجہ یہاںکے لوگوںکی ایک بڑی تعداد کی خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر کے روز گار کمانا ہے، جہاں سے وہ اپنے اہلخانہ کو معقول رقم بھجواتے ہیں۔ یوں یہ بہادر وزیری قبائل اپنے دیگر قبائلی بھائیوںکی طرح بھرپور جوش و جذبہ سے رمضان کی عبادات کی ادائیگی کے ساتھ عیدالفطر کی خوشیاں مناتے لیکن سال رواں میں رمضان کا چاند نظر آنے پر شمالی وزیرستان کی فضاﺅں میں ہوائی فائرنگ کی گونج سنائی نہیں دی۔ بازاروں میں افطاری کی تیاری کیلئے خریداری کرنے والوںکا ہجوم نظر آیا نہ مساجد میںنماز پنجگانہ اور تراویح کیلئے لوگوں کاے اجتماع دیکھنے میں آئے۔ شمالی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام میرانشاہ اور دوسرے بڑے قصبہ میر علی سمیت پوری ایجنسی میں ہو کا عالم طاری رہا توکبھی یہاںکی فضائیںبھاری توپخانہ اور طیاروںکی گولہ باری اور بمباری سے دہکتی رہیں۔
ان دنوں پاک فوج کے آپریشن ضربِ عضب  میں یہاں برسوں سے موجود ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے تمام مقامی آبادی محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کر چکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان ایجنسی میں جاری آپریشن ضربِ عضب کے نتیجہ میں یہاں سے نقل مکانی کرنے والے قبائلیوںکی تعداد10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ بے گھر ہونے والے تقریباً 70 ہزار خاندانوں میں 4 لاکھ سے زائد بچے اور اڑھائی لاکھ سے زائد خواتین شامل ہیں جو انتہائی عجلت اور بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑ کر بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، ٹانک، پشاور اور دیگر اضلاع کو منتقل ہوئے ہیں۔ بلا شبہ یہ مرحلہ ان سب کیلئے کسی آزمائش سے کم نہیں ،ان حالات میںیہ خاندان بھلا عید کی خوشیاں کیسے منا پائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ممکنہ آپریشن کے نتیجہ میں متاثرین کیلئے بنوں سے10 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بکا خیل کے علاقہ میں ایک کیمپ قائم کیا گیا تھا تاہم شمالی وزیرستان کے قبائل کی مخصوص روایات اور اقدار کے نتیجہ میں صرف65 خاندان اس کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ باقی تمام آئی ڈی پیز عزیز و اقارب، کرایہ کے مکانات یا سرکاری عمارات میں مقیم ہیں۔ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، ٹانک، لکی مروت اورکوہاٹ کے اضلاع پر مشتمل جنوبی خیبر پی کے نہ صرف صوبہ بلکہ ملک کے گرم ترین علاقوں میں شامل ہیں اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اس شدید گرمی میں مزید ابتلا و آزمائش کا سامان لئے ہوئے ہے۔ محفوظ مقامات پر کیمپوں میں قیام اور حکومت کی جانب سے ممکنہ تمام وسائل برئے کار لانے کی کوشش کے باوجود شمالی وزیرستان کے یہ 10 لاکھ سے زائد قبائلی اس سال اپنے گھروں سے دور عید منا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان لاکھوں افراد کیلئے یہ بات بھی اطمینان کا باعث ہو گی کہ ہماری مسلح افواج کی جانب سے جاری آپریشن مکمل ہونے کے بعد دہشت گردوں سے پاک ان علاقوں میں قبائلی عمائدین اور انتظامیہ حکومت کی نگرانی میں زندگی معمولات کی طرف لوٹ آئے گی۔ جہاں حکومت اس کیلئے پر عزم ہے وہاں بے گھر ہونے والے لوگ بھی اس بارے میں مکمل پر امید ہیں کہ بہت جلد ان قبائلی علاقوں میں امن وسلامتی کے دن واپس آ جائیں گے۔ شمالی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے شیر زمان نامی دکاندار نے بتایا کہ وہ ہر عید پر بچوں سمیت تمام اہلخانہ کیلئے نئے کپڑے اور جوتے خریدتا تھا جبکہ عید کے موقع پر اس کے تمام رشتہ دار اس کے ہاںجمع ہوتے اور وہ بکرا یا دُنبہ ذبح کر کے اپنے ان رشتہ داروں اور عید ملنے کیلئے آنے والے دوست احباب کی خاطر تواضع کرتے لیکن اس رمضان میں اسے اور اس کے خاندان کو عید پر نئے کپڑوں اور جوتوںکی خریداری ممکن نہ ہو گی علاوہ ازیں اسے آئندہ ماہ کیلئے مکان کاکرایہ ادا کرنا مشکل ہو گا ۔ لیکن دوسری طرف کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزینوں کے ھوالے سے ایسے مناظر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ یہ لوگ حکومتی امدادی مراکز سے ملنے والی خوراک کے تھیلے دوکانداروں کے ہاتھوں بیچ کر رقوم وصول کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں