رمضان المبارک کی ساعتیں تمام ہوئیں، آج عید سعید کے لمحات خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت لئے جلوہ افروز ہیں۔ ان سانحاتِ غم میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے بہادر جرنیل محترم مجید نظامی صاحب کا سانحہ ارتحال بھی ہے۔ یقینا وہ ایک بااصول، باوقار اور باکردار انسان تھے۔ ان کے سائے تلے متعدد اخبار نویس، کالم نگار، تجزیہ کار اور عمائدین سیاست نے پرورش پائی۔ وطن عزیز کی قحط الرجال فضاء میں ان کا وجود ایک بڑی نعمت تھا جس سے ہم سب محروم ہوگئے ہیں۔ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے والوں کی تعداد لامحدود ہے اور یہی ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سال عالم اسلام سمیت امریکہ اور یورپی ممالک کے حساس مسلمانوں نے پورا رمضان ہی شدت غم میں گزارا ہے۔ زخم ایک ہو تو اس کا احوال لکھا جائے جب پورا وجود ہی چھلنی ہوچکا ہے تو کس کس تکلیف کا تذکرہ کیا جائے۔ تاہم یہ رمضان فلسطین کے مسلمانوں کے لئے ناقابل بیان تکالیف کا پیام لے کر وارد ہوا۔ اپنے ہی گھروں میں اپنے ہی آبائی وطن کی فضائوں میں ان کی آہیں، سسکیاں اور فلک شگاف چیخیں آج بھی فضائے بسیط میں پھیل رہی ہیں مگر پوری انسانیت دم بہ خود ہے۔ عالم مغرب بھی اور عالم مشرق بھی۔ تبدیلی کے نام سے اقتدار حاصل کرنے والے باراک اوباما جس کی رگوں میں ایک مسلمان باپ کا خون گردش کررہا ہے۔ اس نے بھی بچوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھے، وہ خواتین اور مجبور پیرو جواں کے بے گورو کفن لاشے سڑکوں، چوراہوں اور گلی کوچوں میں دیکھ کر بھی مذمت کے دو لفظ نہیں بول سکا۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اس کا یہ تبصرہ نشر کیا جو اس نے نیتن یاہو کو فون پر بات کرتے ہوئے کیا۔ ’’ہم اسرائیل کو اپنی سلامتی کے تحفظ کا حق دیتے ہیں‘‘ گویا تحفظ کا حق اب صرف اسرائیل کو حاصل ہے۔ تین ہفتوں میں 1100 کے قریب نہتے مسلمان جو لقمہ اجل بن گئے اور وہ ہزاروں زخمی تڑپتے ہوئے بچے، عورتیں اور نوجوان جو علاج کی سہولت کے بغیر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ان کا کوئی حق نہیں تھا۔ نہ زندگی کا حق نہ امن و امان کا حق، نہ اپنی چھتوں کے نیچے اپنے پیاروں کے ساتھ زندہ رہنے کا حق۔ اس پورے عرصے میں اربوں انسانوں کی اس مہذب دنیا کے کسی کونے سے کسی پلیٹ فارم اور کسی حکومتی کاوش کا علم نہیں ہوسکا جس میں کلمہ گو مسلمانوں کے ان حقوق کا تذکرہ ہوا ہو۔ یاد رکھیں امریکہ اور یورپ کے دساتیر اور قوانین انسانی حقوق کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں جہاں کسی مذہب و مسلک کی تمیز نہیں برتی جاتی بلکہ ان ممالک میں حیوانات اور چرند و پرند کے حقوق بھی مسلم ہیں۔ لیکن ’’طاقت‘‘ کے قانون کے سامنے یہ سب قوانین اور ضابطے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ حیرت ہے مذاہب عالم میں سب سے کم تعداد یہودیوں کی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ایک کروڑ اور کچھ لاکھ یہودی پائے جاتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب ہوچکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں اسی طرح ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کے مقابلے میں 58 مسلمان ممالک ہیں مگر یہ غیر منظم ہجوم ان کی منظم قوت کے سامنے روئی کے گالوں سے بھی زیادہ بے وزن اور بے حیثیت ہے۔ نظم اجتماعی اور اتفاق و اتحاد سے محروم مسلمان افرادی قوت، ممالک کی تعداد اور مال و دولت کے انباروں کے ساتھ بھی بے وقعت اور بے توقیر ہے۔ حدیث نبوی کے مطابق ہر طرف سے خونخوار بھیڑیئے ان کے وجود کو نوچ رہے ہیں مگر یہ ’’وھن‘‘ (موت سے خوف) کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس لئے ان کی عیدیں، ان کے رمضان اور دوسرے تہوار اپنی روح سے خالی ہوچکے ہیں کیونکہ ان تہواروں کی روح تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی مضبوطی اور باوقار و پرامن زندگی کی مسرتوں سے عبارت ہے۔
ارض فلسطین اور غزہ میں بہنے والے اس خونِ مسلم کا کیا رونا اس سے زیادہ تو خلیجی ریاستوں میں مسلمان جہادیوں کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہہ رہا ہے۔ شام میں فرقہ پرستی کی جنگ پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ مسلح جہادی تنظیموں کی آپس میں لڑائیاں اور داعش جیسی تکفیری تنظیم کے ہاتھوں اب شام اور عراق کے ہزاروں بے گناہوں کا خون بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہاں انبیائ، صحابہ اور اولیاء اللہ کے صدیوں سے مخلوق کی روحانی آسودگی کے مراکز مزارات کو شہید کیا جارہا ہے۔ ان کی مخصوص خلافت سے اختلاف کرنے والوں کا خون مباح ہوچکا ہے۔ عراق میں وسیع پیمانے پر گروہ بندیاں اور خون ریزیاں آج بھی جاری ہیں۔ عراق کے نہتے مسلمان ایک عشرے میں تیسری مرتبہ تہہ تیغ ہورہے ہیں۔ نہ مرنے والوں کو اپنے گناہوں کا علم ہے اور نہ مارنے والوں کو۔ لیبیا میں بھی گذشتہ ایک ہفتے سے ایک باغی گروہ سر اٹھا چکا ہے اور وہاں بھی درجنوں اموات ہوچکی ہیں۔ عراق اور لیبیا بلاشبہ آمریت کے دور میں بھی اتنے خوشحال اور پرامن ملک تھے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مصر وغیرہ سے لوگ روزگار کے لئے جایا کرتے تھے۔ مگر آج وہاں مسلمان ہی مسلمانوں کاخون بہارہے ہیں۔
آج کی عید سعید کے موقع پر آخری تذکرہ وطن عزیز پاکستان کی فضائوں کا بھی ہوجائے جہاں دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی ضرب عضب جاری ہے۔ 10 لاکھ بے گھر افراد نے پہلی بار سڑکوں اور کیمپوں میں عید منائی ہے۔ افواج پاکستان ایک بڑی جنگ میں مصروف ہیں کیونکہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی پر اسلام دشمنوں کی سازشیں کارفرما ہیں جو پاکستان کے وجود کی دشمنی کے مشترک ایجنڈے پر متفق ہیں۔ ابھی تک اس جنگ کے خاتمے یا فتنہ بغاوت کی سرکوبی کے دورانئے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ مگر اسلام آباد کو بھی فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام آباد میں موجود حکمران ایک عوامی جمہوری حکومت کے دعویدار ہیں۔ ادھر عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کا لشکر اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا ریلہ اسلام آباد پر ’’ضربِ غضب‘‘ کی تیاریاں کررہا ہے۔ حرکتوں اور پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت چاروں شانے چت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ورنہ سانحہ ماڈل ٹائون جیسا خودکش حملہ کبھی نہ کیا جاتا۔ الغرض یہ عید ایک طرف ہجوم مسلم کا مظہر ہے اور دوسری طرف مقتل گاہوں سے اپنے اور غیروں کے ہاتھوں قتل و غارت گری کی خبریں آرہی ہیں۔ اندازہ کرنا محال ہے کہ یہ امت کب اور کیسے سنبھلے گی اور ہماری عیدیں ہمیں حقیقی سعادتوں سے ہمکنار کریں گی۔
کہیں ہے جشنِ عید تو کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل پہ کڑھتا ہے