’’جانے والے تیرا ذکر رہے گا صدیوں‘‘

26 جولائی کا دن میری زندگی کا ایک بے حد المناک دن تھا۔ اس روز سحری کے وقت ٹیلیویژن پر یہ المناک خبر آگئی تھی کہ وقارِ صحافت جناب مجیدنظامی اس دارِفانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ میرا ایک عظیم محسن مجھے یتیم کر گیا تھا۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی صبح اخبار ’’نوائے وقت‘‘ میں پہلے صفحے پر یہ اعلان نمایاں چھپا تھا کہ ’’سینے کے انفیکشن کے باعث ایک مقامی ہسپتال میں جناب مجیدنظامی کا علاج انتہائی قابل ڈاکٹر کر رہے ہیں اور اس وقت انکی حالت مستحکم ہے اور وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔‘‘ انکی علالت کی خبر کو اس وقت پر لگ گئے تھے جب ایک مقامی اخبار میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی وہ تصویر چھپ گئی جس میں وہ جناب مجیدنظامی کی عیادت کر رہے تھے اور تشویش کی لہر پیدا ہوئی تو پوری دنیا میں اور بالخصوص سعودیہ میں کعبتہ اللہ میں انکی صحت یابی کیلئے دعائیں کی جانے لگیں۔ 25 جولائی کے چوکٹھے کا اعلان تشویش کی لہر کو کم کرنے کی کوشش ہی تھی‘ لیکن مجید نظامی صاحب سے محبت کرنیوالے لاکھوں لوگوں نے اس اعلان کو بھی خطرے کی علامت سے تعبیر کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس روز انہوں نے آنکھیں کھول کر دنیا پر آخری نظر ڈالی تو وہ ڈاکٹروں کو روبصحت دکھائی دیئے‘ لیکن یہ شمعِ صحافت کا آخری اُجالا تھا۔ رات کو ان کی طبیعت اچانک دگرگوں ہو گئی اور وہ خالقِ حقیقی کی بارگاہِ اقدس میں پیش ہونے کیلئے لرزتے ہونٹوں سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے خاموش ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر مجیدنظامی کی رحلت سے اُردو صحافت میں نظریاتی ادارت کا وہ چراغ گل ہو گیا جو گزشتہ باون برسوں سے تشکیلِ پاکستان کے بنیادی تقاضوں کے تحفظ کیلئے کوشاں تھا اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی اسلامی روایت کی ہر قدم پر پیروی کر رہا تھا۔ بظاہر وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر تھے‘ لیکن درحقیقت ان کا قلم رزمِ حق و باطل میں اسلام اور پاکستان کی تلوار تھا اور اقتدار کے ایوانوں سے ان پر ذرا سی آنچ کا خطرہ بھی پیدا ہوتا تو مجید نظامی صاحب کا اداریہ ان پر تیغ براں کی طرح برس پڑتا۔
مجید نظامی صاحب کا تعلیمی دور جدوجہد پاکستان کے گہوارے میں پروان چڑھا۔ انکے بڑے بھائی جناب حمیدنظامی اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو ان کی لیڈرشپ پر اعتماد تھا۔ انہوں نے ہی 1944ء میں حمیدنظامی صاحب کو ہفت روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کو روزنامے میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ روزنامہ نوائے وقت کا پہلا پرچہ نکلا تو مجیدنظامی اسلامیہ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کے طالبعلم تھے۔ اس وقت تک مجیدنظامی کو پہلے پندرہ روزہ اور پھر ہفت روزہ نوائے وقت میں جناب حمیدنظامی عملی صحافت کی ابتدائی تربیت دے چکے تھے۔ نوائے وقت روزنامے میں تبدیل ہوا تو انہیں مختلف موضوعات پر قلم آرائی کے مواقع بھی ملنے لگے۔ اپنی تعلیم کی اعلیٰ ڈگری لینے کیلئے لندن گئے تو انہوں نے وہاں ’’نوائے وقت‘‘ کے نمائندہ کے فرائض بھی انجام دیئے۔ حکومت برطانیہ کے سیاسی اقدامات پر مجیدنظامی کی ڈائری تجزیاتی نوعیت کی ہوتی تھی جس میں موقع کی مناسبت سے طنزومزاح کا پیوند بھی لگا ہوتا تھا۔ لطیف حسِ مزاح مجیدنظامی صاحب کے مزاج میں شامل تھی اور ’’نوائے وقت‘‘ کے پرانے قارئین جانتے ہیںکہ وہ ایک زمانے میں ادارتی صفحے کا کالم ’’سرراہے‘‘ بھی لکھتے رہے ہیں۔
 لندن میں قیام کے دوران ہی ان کے بڑے بھائی حمیدنظامی فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء کی گھٹن اور جبر کی تاب نہ لا سکے اور شدید علیل ہو گئے۔ چنانچہ مجیدنظامی صاحب کو لندن سے وطن واپس بلا لیا گیا۔ حمیدنظامی نے انہیں دیکھ کر اطمینان محسوس کیا کہ اب ’’نوائے وقت‘‘ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اگلے چند لمحات میں واصل بحق ہو گئے۔ 25 فروری 1962ء جناب حمیدنظامی کا یوم وفات ہے۔ اس روز سے لیکر 26 جولائی 2014ء تک مجیدنظامی صاحب نے اس نظریاتی اخبار کو قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں‘ علامہ اقبال کے نظریات‘ اسلام کی تعلیمات‘ حمیدنظامی کے اسالیبِ صحافت اور بہبودی ٔپاکستان کے تقاضوں کے مطابق چلایا۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے سے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ جاری کیا۔ بچوں کا ماہنامہ ’’پھول‘‘ اور بڑوں کیلئے فیملی میگزین جاری کرکے ’’نوائے وقت‘‘ کو ایک ’’اخباری ایمپائر‘‘ کا درجہ دیدیا جس میں ’’وقت ٹی وی‘‘ جدید ترین اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
جناب مجیدنظامی کا نام میں نے 1944ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے تعلیمی دور میں سنا تھا۔ نظامی صاحب آرٹس (عمرانیات) کے طالبعلم تھے اور میں سائنس کے مضامین سے وابستہ تھا۔ ہمارے ٹیوٹوری گروپ بھی الگ تھے‘ اس لئے ان سے باقاعدہ تعارف کی نوبت نہ آئی‘ لیکن تحریک پاکستان میں جب اسلامیہ کالج کے طلباء کے ایک جلوس پر سنائن دھرم کالج کے طلباء نے پتھروں سے حملہ کر دیا تو مجیدنظامی ہراول دستے میں عبدالمالک کے ساتھ ’’لے کے رہیں گے پاکستان… بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعروں میں شامل تھے۔ عبدالمالک کو ایک پتھر اتنا زخمی کر گیا کہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس کے خون کے قطرے مجیدنظامی کی قمیص پر بھی گرے۔ چنانچہ اسی روز مجیدنظامی سارے کالج کی آنکھ کا تارا بن گئے اور سب کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ایڈیٹر جناب حمیدنظامی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اسکے بعد ان کی شہرت روزبروز ترقی کرتی چلی گئی تاآنکہ انکے صحافتی دور کو تابناک قرار دیا گیا اور ان کی اصول پرستی کو زر پسند صحافت کے حالیہ دور میں مثالی قرار دیا گیا۔
میں اس بات پر فخر کا اظہار کر سکتا ہوں کہ مجھے ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ادبی ماہنا مخزن میں اور ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ میں لکھنے کے مواقع ملتے رہے۔ انکے مدیران مولانا حامد علی خان اور شیر محمد اختر نے میرے قلم کو اعتماد کی دولت سے سرفراز کیا‘ لیکن میری سیاسی معلومات کا مستند ماخذ روزنامہ نوائے وقت تھا جس کے اداریے زبان بیان سنوارے میں بھی مدد کرتے تھے۔ محکمہ آبپاشی سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو میرے سامنے ’’نوائے وقت‘‘ ایک بلند مقصد آفریں اخبار تھا۔ میں نے ابتدائی چند سال رسالہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ ہفتہ روزہ ’’زندگی‘‘ اور روزنامہ خبریں میں بسر کئے اور منیر احمد منیر مجھے ’’نوائے وقت‘‘ میں نومبر 1987ء میں لے آئے تو مجید نظامی صاحب نے غیر رسمی بات چیت کے بعد مجھے ایڈیٹوریل میں جگہ دیدی اور میری اس گزارش کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا کہ مجھے اداریہ نگاری کا تجربہ نہیں تھا۔ صرف یہ کہا کہ ادارتی میٹنگ کے نقاط غور سے سنا کرو اور پھر انہیں ’’نوائے وقت‘‘ کی مخصوص زبان میں لکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے ان کے ارشاد پر عمل کیا۔ ادارتی مسودہ مجید نظامی صاحب کی منظوری کے بعد واپس آتا تو وہ خود اس کے کئی نکات کو اجلا کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ ہم سے ایک اہم سیاسی واقعے کی تاریخ درج کرنے میں غلطی ہو گئی۔ اتفاق سے یہ غلطی چیکنگ میں بھی قائم رہی۔ رات کو نو بجے اسلام آباد آفس نے نشاندہی کی تو میں نے لاہور آفس میں فون کرکے غلطی درست کرا دی‘ لیکن شومئی قمست سے سب سٹیشنوں پر غلطی کی اصلاح ہو گئی‘ لیکن لاہور کے مارننگ ایڈیشن میں غلطی موجود تھی۔ میں نے اس کا اعتراف نظامی صاحب سے کیا تو صرف یہ کہا ’’غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے‘ آئندہ اداریہ غور سے دیکھا کریں۔‘‘ میں نے گزارش کی کہ ’’میرا جسم اب میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ مجھے ریٹائرڈ کر دیجئے‘‘ اسی شام نوائے وقت اور نیشن کے ادارے کا ایک جلسہ کیا۔ مجیدنظامی صاحب نے میری معمولی خدمات کو غیرمعمولی طورپر سراہا اور مجھے ریٹائرڈ کردیا۔ بعد میںمجھے دفتر بلوایا اور فرمایا ’’آپ دفترسے ریٹائر ہو گئے ہیں‘ نوائے وقت سے ریٹائر نہیں ہوئے۔ آپ گھرسے کام کرکے بھیج دیا کیجئے۔‘‘ یہ سلسلہ اب تک قائم ہے۔ میری تنخواہ کا آخری چیک مجھے 3 جولائی کو ملا تو اس پر نظامی صاحب کے دستخط تھے۔ میرے دل کو کسی کرب نے مٹھی میں پھینچ لیا اور آخر وہ سانحہ ہو گیا جو ہر زندہ انسان کا مقدر ہے۔ آبروئے صحافت جناب مجیدنظامی اس فانی دنیا سے عالم دائم کو روانہ ہو گئے۔ نوائے وقت کے لاکھوں قارئین کو سوگوار چھوڑ گئے۔ حق تعالیٰ مغفرت کرے کہ ان جیسے بااصول صحافی اب کم کم نظر آتے ہیں اور میں اس بات کا اعتراف ضروری سمجھوں گا کہ نوائے وقت کے ساتھ وابستگی نے مجھے بے پایاں عزت سے سرفراز کیا اور جو صحافی زیادہ تنخواہ کے لالچ میں نوائے وقت چھوڑ کر کسی دوسرے اخبار میں چلے گئے‘ ان کے قلم سے تاثیر ختم ہوگئی۔ اب ان کی خامہ فرسائی بے روح ہے۔

ای پیپر دی نیشن