آئین پاکستان کا آرٹیکل 251 کا تعلق پاکستان کی قومی زبان سے ہے۔ جس کے الفاظ آئین میں درج کچھ یوں ہیں۔
1۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔
2۔ شق i۔ کے تابع انگریزی زبان میں اس وقت تک سرکاری اغراض کے لئے استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
3۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی، قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکے گی۔
قومی زبان کے حوالہ سے یہ ہیں وہ الفاظ جو آئین پاکستان 1973 ء میں درج ہیں آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کرنے کی عملی صورت حال کیا ہے؟ کونسا کام کیا جا چکا ہے اور کونسے کام ابھی کرنا باقی ہیں؟
اس موضوع پر کہ ’’اردو زبان‘‘ ہماری قومی زبان ہو پر بہت سے آرٹیکل تجویز کئے گئے اور جونہی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی طرف سے ایک انتظامی حکم نامہ جاری ہوا تو اس پر اخبارات میں، کالم نگاروں نے خوب کھل کر اپنا اپنا اظہار خیال کیا جو کہ انتہائی حوصلہ افزاء اور امید افزا ہے۔ اس پر روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے اداریہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ جلد بازی میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں کہ ہم بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔ ان کی خدمت میں صرف اتنی ہی گزارش ہے کہ ہم تو پہلے ہی کٹ چکے ہیں۔ اگر یہ کام آج سے پہلے اپنے مقررہ وقت پر ہو چکا ہوتا تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے سامنے رونما ہوتا۔ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ باقی پاکستان کے تمام صوبوں میں یکجہتی ہم آہنگی اور اپنا ثبت پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کیا فورم ہو گا؟ ذرا سوچئیے! زیر نظر ’’حکم نامہ‘‘ کے مطابق تمام وفاقی سرکاری نیم سرکاری ادارے قوانین پالیسیوں کا تین ماہ میں اردو ترجمہ کریں گے پاسپورٹ پر بھی انگریزی کے ساتھ اردو میں اندراج ہو گا پنجاب تو پنجابی زبان بھی رائج نہیں کر سکا۔ یہ تھے ریمارکس جناب جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کے۔نتیجہ سرکاری اداروں میں اردو رائج کرنے کی منظوری دے دی گئی اس کے ساتھ ہی صدر پاکستان وزیر اعظم پاکستان بیرون ملک قومی زبان میں ہی تقاریر کریں گے یہ تھے چند ایک حقائق جو اس سے پہلے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں اور اس کا تذکرہ ٹی وی چیلنز میں بھی خوب ہو چکا ہے۔
اس موقع پر پاکستان قومی زبان اردو تحریک کے بانی اور روح رواں جناب ڈاکٹر شریف نظامی اور ان کے ساتھ اس تحریک کے عہدیداران جناب پروفیسر رضوان الحق، پروفیسر سلیم ہاشمی، پروفیسر زاہد، جناب عزیز ظفر آزاد بھی دلی مبارکباد قبول فرمائیں اور ان کے ساتھ اس تحریک کی انتہائی فعال کارکن محترمہ فاطمہ قمر اور وہ تمام لوگ جو اس تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے۔ میرے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد قبول فرمائیں یہاں خاص طور پر ڈاکٹر انور احمد بگولی کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے مجھے اس تحریک سے متعارف کرایا اور جلد ہی پوری قوم یہ خوشخبری بھی سن لے گی کہ جو کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں (نفاذ اردو کے حوالہ سے) چل رہا ہے اس میں دو خاص باتیں ابھی تک نہیں ہوئیں۔ وہ بھی ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
ایک بات تو ’’اردو کو ذریعہ تعلیم و تدریس بنانا‘‘ اور دوسری بات تمام مقابلہ کے امتحانات مثلاً سی ایس ایس، بی سی ایس، وغیرہ کا انعقاد بھی اپنی قومی زبان اردو میں ہونا۔چونکہ یہ بات اظہر من الشمس کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ وہ اپنی زبان میں لکھنا، پڑھنا اور سوچنا نہ شروع کرے۔ کیونکہ ہر نئی تحقیق کسی نہ کسی نئی سوچ کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔
اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان تمام قوموں نے اپنی مادری زبان کو ہی ذریعہ تعلیم و تدریس بنایا۔ کیونکہ صحیح سوچ ہی صحیح تحقیق کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اگر آپ اپنی زبان میں سوچنا نہیں شروع کریں گے تو نئی تحقیق کرنا تو محال آپ اپنے پہلے والے حال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا کے مصداق ہو گا۔بقول ماہرین تعلیم سب سے پہلے غیر ملکی زبان کا سیکھنا پھر اسی زبان میں سوچنا یہ اتنا مشکل امر ہے۔ کہ جس کے نتیجہ میں کوئی نئی تحقیق کو وجود میں لانا، محال ہے، اس لئے ماہرین تعلیم، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم و تدریس کو اپنی مادری زبان میں ہی ہونا چاہیے اور اس کی ترویج کی جانی چاہیے یہ سب کچھ قومی زبان میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اور اسی کی سوچ بچار کا محور و مرکز بنانا چاہیے۔ (باقی آئندہ)