لاہور (سیف اللہ سپرا) ملک میں نئے آبی ذحائر تعمیر کر کے نہ صرف سستی بجلی اور آبپاشی کیلئے پانی حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ ہر سال 36 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ پانی سے جو بجلی پیدا کی جاتی ہے اس پر دو روپے سے چار روپے فی یونٹ اخراجات ہوتے ہیں جبکہ تھرمل اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر 16 روپے سے 21 روپے فی یونٹ تک بجلی ملتی ہے۔ نہری پانی تقریباً دس روپے فی ایکڑ ملتا ہے۔ اس کے مقابلے میں زیرزمین پانی نکالنے پر 700 روپے سے ایک ہزار رورپے فی ایکڑ اخراجات ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک 22 سیلاب آ چکے ہیں اور آج کل ہم 23ویں سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان سیلابوں میں بھاری جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر نئے آبی ذحائر تعمیر کرے تاکہ سستی بجلی اور آبپاشی کیلئے پانی کے حصول کے علاوہ عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچایا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے نوائے وقت گروپ کے زیراہتمام ’’کیا نئے آبی ذخائر تعمیر کر کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر ایوان وقت میں منعقدہ مذاکرے میں کیا۔ مذاکرے کے شرکاء میں ترجمان حکومت پنجاب اور مرکزی رہنما مسلم لیگ (ن) زعیم حسین قادری، سابق وزیر آبپاشی پنجاب اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما راجہ ریاض احمد، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جمشید اقبال چیمہ، کسان بورڈ پاکستان کے سینئر نائب صدر سرفراز احمد خان، سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے بانی چیئرمین حافظ ظہور الحسن ڈاہر اور سندھ طاق واٹر کونسل کے چیئرمین محمد سلیمان خان تھے۔ ترجمان حکومت پنجاب زعیم حسین قادری نے کہا کہ آبی ذخائر کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج پاکستان کے دریائوں کا 38 فیصد پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے، دنیا بھر کے معاشی ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ مستقبل میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہو گا۔ جن ممالک کے پاس وافر پانی موجود ہو گا ان کی معیشت مستحکم ہو گی، پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی سستی ترین ہونے کی وجہ سے معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔ بھارت نے پانی کی اہمیت کو سمجھا اور گذشتہ 68 برسوں میں 63 بڑے ڈیم تعمیر کر کے معیشت کو مضبوطی کی راہ پر گامزن کر چکا ہے لیکن پاکستان میں نئے ڈیم مصلحت اور سیاست کی نذر ہو رہے ہیں۔ فیڈریشن کو مضبوط رکھنے کے نام پر جس طرح نئے آبی ذخائر کی تعمیر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے یہ طرز عمل صرف پاکستان میں ہے۔ چاروں صوبوں کا فرض ہے کہ وہ نئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے قربانی دیں۔ پنجاب کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے ہر سال فنڈز مختص کرتا رہا مگر باقی تین صوبوں کی مخالفت کی وجہ سے کالاباغ ڈیم نہ بن سکا۔ نئے ڈیم تعمیر نہ ہونے سے پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی پیداوار بڑھانے سے قاصر رہا۔ اگر ہم اگلے پانچ سال میں پانچ سے سات ڈیم نہ بنا سکے تو پاکستان کی زراعت اور معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ سابق وزیر آبپاشی پنجاب اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما راجہ ریاض احمد نے کہا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ جو بھی حکمران آئے انہوں نے پاکستان کے جو وسائل تھے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ جس طرح باقی تمام شعبوں میں بدانتظامی اور کرپشن ہے یہی صورتحال پانی کے حوالے سے بھی ہے۔ پاکستان میں بہت سے ڈیم بن سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ہم صرف دو بڑے ڈیم بنا سکے جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت نے 60 سے زیادہ بڑے ڈیم بنائے ہیں۔ ہم ڈیم بنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تقریباً ہر سال سیلاب کے باعث جانی نقصان کے علاوہ اربوں روپے کے مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میاں شہباز شریف جب سیلاب آتا ہے تو نمبر بنانے اور فوٹو سیشن کیلئے باہر نکلتے ہیں۔ پچھلے 33 سال سے میاں برادران حکومت کر رہے ہیں لیکن ڈیم بنانے کی طرف توجہ نہ دی۔ آج بھی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے قوم ہر سال کی طرح اس سال بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہی ہے۔ پرویز الٰہی کے زمانے میں 16 چھوٹے ڈیم بنائے گئے مگر ان 16 ڈیموں میں سے کسی سے بھی کسانوں کو پانی مہیا نہیں کیا جا رہا۔ میں آخر میں میاں نواز شریف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری طور پر نئے ڈیم بنانے کا آغاز کیا جائے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور معروف صنعتکار چودھری جمشید اقبال چیمہ نے کہا کہ پاکستان کے دریائوں میں 70 فیصد پانی مون سون کے 40 دنوں میں آتا ہے اور باقی 30 فیصد پانی سال کے باقی 325 دنوں میں آتا ہے۔ ہمارے پاس واحد آپشن ہے کہ فوری طور پر یہ آبی ذخائر بنائیں اور 40 دنوں میں ملنے والا بارشی پانی محفوظ کر لیں۔ اگر بارشی پانی محفوظ نہ کیا جائے تو یہ پانی تباہی پھیلاتا ہوا سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور کچھ زیرزمین چلا جاتا ہے۔ اگر ہم سٹور شدہ پانی سے بجلی پیدا کریں تو اس پر دو روپے سے چار روپے فی یونٹ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تھرمل اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر 16 روپے سے 21 روپے فی یونٹ بجلی ملتی ہے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا زیرکاشت رقبہ صرف 29 فیصد ہے جبکہ 71 فیصد زمین بنجر پڑی ہے۔ اگر پانی موجود ہو تو یہ زیرکاشت رقبہ بڑھا کر زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکمرانوں نے ڈیم تعمیر نہ کر کے جرم کیا ہے اور وہ قومی مجرم ہیں، اب بھی وقت ہے کہ فوری طور پر نئے ڈیم تعمیر کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ کسان بورڈ پاکستان کے سینئر نائب صدر سرفراز احمد خان نے کہا کہ اس وقت 140 ملین ایکڑ فٹ پانی تین مغربی دریائوں (چناب، جہلم، سندھ) سے ملتا ہے۔ تقریباً 68 ملین ایکڑ فٹ پانی زیرزمین سے حاصل ہوتا ہے، 14 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تین بڑے سٹوریج ڈیم ہیں جن میں سے بڑا تربیلا ہے جس کی اس وقت صلاحیت 7.3 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کرنے کی ہے۔ دوسرا منگلا ڈیم ہے جس کی اس وقت صلاحیت 4.3 ملین ایکڑ فٹ پانی ہے اور چشمہ کی صلاحیت اس وقت 0.47 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ کل دستیاب پانی میں سے 140 ملین ایکڑ فٹ پانی آبپاشی کیلئے استعمال ہوتا ہے جس میں سے تقریباً آدھا ضائع ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ پانی کا ذخیرہ کرنے اور اس کے بہتر استعمال کیلئے پالیسی بنائیں۔ سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے بانی چیئرمین حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے کہا ہے کہ بھارت اور یہودی لابی اس بات پر متحد ہو گئے ہیں کہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں چناب، جہلم اور سندھ اور ان کے معاون ندی نالوں کو بھارتی حدود میں بند کر دیا جائے اور پاکستان کی لائف لائن کاٹ دی جائے۔ بھارتی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز نے کہا ہے کہ بھارت 2020ء تک پاکستان کا پانی مکل طور پر اپنی حدود میں بند کر سکتا ہے۔ اگر ملک بچانا ہے تو فوری طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع کر دی جائے اور 2018ء تک مکمل کر دی جائے۔ سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین محمد سلیمان خان نے کہا کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد ہم نے پانی کا کوئی ذخیرہ نہیں بنایا۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جو کسی زمانے میں دوسرے ملکوں کو اناج مہیا کرتا تھا آج بھارت سے آلو، پیاز اور ٹماٹر درآمد کرتا ہے۔ اگر ہم نے نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کئے تو ہمیں زندہ رہنے اور بھوک مٹانے کیلئے بھارت کے آگے جھولی پھیلانا پڑے گی جس سے ہماری خودمختاری متاثر ہو گی۔ اگر کالاباغ ڈیم نہ بنایا گیا اور باقی ڈیم بنا لئے گئے تو سیلاب کا خطرہ برقرار رہے گا۔ سیلابی پانی کو جو سمندر میں گرتا ہے اس کو محفوظ بنا کر چولستان اور تھر کی بھوک ختم کی جا سکتی ہے۔